افسانچہ:- بلاعنوان

0
0

۰۰۰
خالد بشیر تیلگامی
9797711122
۰۰۰

ایک باغ میں ‘ میں نے ایک بوڑھی عورت کو دیکھا۔جو  پانی مانگ رہی تھی۔مگر کوئی بھی اس کو پانی نہیں پلا رہا تھا-میں پانی لے کر اس کے پاس گیا اور اس کو پانی پلا کر اس کے پاس بینچ پر بیٹھ گیا۔ایک باغ میں ‘ میں نے ایک بوڑھی عورت کو دیکھا۔جو  پانی مانگ رہی تھی۔مگر کوئی بھی اس کو پانی نہیں پلا رہا تھا-میں پانی لے کر اس کے پاس گیا اور اس کو پانی پلا کر اس کے پاس بینچ پر بیٹھ گیا۔اور اس سے پوچھا۔ماں تم یہاں کیسے؟میری بات سن کر اس کو رونا آ گیا.پھر روتے روتے  میری طرف دیکھا اور کہا۔ بیٹا میں اپنا درد کسی کو نہیں بتاتی۔اب جب آپ نے ماں کہا تو آپ کو بتاتی ہوں۔ میرا ایک ہی بیٹا ہے۔جس کو میں نے اپنے پیٹ کاٹ کر  پالا پوسا. ہمیں آپس  میں اتنا پیار تھا۔کہ ایک منٹ بھی ایک دوسرے کے بغیرِ جی نہیں پاتے تھے۔ میں اس کو ڈاکٹر بنانا چاہتی تھی  تاکہ غریبوں کے کام آسکے کہ اچانک میرے پتی کا انتقال ہو گیا۔اور ہم یتیم۔(آہ…بیٹے کے ساتھ ماں کیسے یتیم ہوئی) سب خواب ادھورے رہ گئے۔باپ کے مرنے کے بعد بیٹے نے  شادی کی تاکہ مجھے آرام پہنچے۔مگر شادی کے بعد مجھے زیادہ مصیبتوں اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا -ہر روز بہو کسی نہ کسی بات پر مجھ سے جھگڑا کرتی ہے.جو میرے بیٹے کو قطعا برداشت نہ ہوتا۔پھر میری وجہ سے ان کی آ پس میں لڑائی شروع ہو جاتی ہے۔جس کی وجہ سے میرا بیٹا پریشان.آج کل بہت پریشان رہتا ہے –  اب وہ بہو  کو طلاق دینے کی سوچ رہا ہے جو مجھ سے برداشت نہیں ہو گا۔اسلئے اب میں ہی گھر سے بیٹے کو بغیر پوچھے  نکلی۔اور یہ فیصلہ کیا ہے کہ باقی  بچی ہوئی زندگی کسی  یتیم خانے (افففف…. یتیم خانے یتیموں کے لیے ہوتے ہیں.. بڑوں کے لیے اولڈ ہومز ہونگے) میں گزاروں تاکہ میرا بیٹا اور بہو خوش رہ سکے۔۔۔۔۔۔اب بیٹا اور ایک مہربانی کرو مجھے کسی یتیم خانے تک لے چلو….. یہ سن کر  میرے آ نکھوں میں بھی آنسو آ گئے۔اور میں نے اس کہہ دیا ” ماں”آپ میرے ساتھ چلو ”ماں”بن کر میں نے اب تک شادی نہیں کی کہ تجھے وہاں بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا