مقصوداحمدضیائی
اصلاحی مجالس کا انعقاد وقت کی اہم ترین ضرورت "سائنس اور جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں علمی ؛ دینی ؛ تعلیمی ؛ تجارتی ؛ معاشی ؛ صنعتی اور سائنسی ایجادات و اکتشافات میں زبردست ترقیات ہوئی ہیں۔ وہیں ٹیکنالوجی اور اقتصادی خوشحالی اور فارغ البالی نے بھی اپنا ایک مقام اور مخصوص شناخت بنالی ہے۔ ماضی کے ستر برسوں میں دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ؛ اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا ؛ خوبصورت ترین مکانوں ؛ بنگلوں ؛ کوٹھوں اور کشادہ دالان و گیرج ؛ مہنگی کاروں اور گاڑیوں ؛ فلک بوس عمارتوں ؛ ہواؤں سے باتیں کرتے ہوئے فضاؤں میں تیرنے والے جہازوں ؛ دور مار میزائلوں ؛ راکٹوں ؛ وی سی آر اور ڈش انٹینا سے گزر کر فحش اور مکروہ CD اور ایٹم بم ؛ انٹرنیٹ اور کمپیوٹر سسٹم سے بھی آگے بڑھ کر پیکچر ؛ سیلولر ؛ فون اور اب موبائل نے تہذیب جدید پر وہ اثر ڈالا ہے کہ اس کے مسموم اور مکدر ماحول سے قدیم تہذیب بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔ موبائل فون ؛ امراء ؛ رؤسا ؛ وزراء ؛ اور ساہوکاروں سے گزر کر عام انسانوں بلکہ مزدور پیشہ طبقات میں بڑی تیزی اور برق رفتاری کے ساتھ داخل ہو رہا ہے۔ موبائل کمپینیاں اپنی تجارتوں کو چمکانے اور دوکان کو بڑھانے کے لیے ماحول اور تہذیب کو گندی ؛ عریاں ؛ فحش اور شرمناک مناظر سے آلودہ کرنے میں دوسرے کو مات اور شکست دینے کے لیے بے چین و بے قرار ہیں۔ عام گزرگاہوں ؛ پارکوں ؛ ہوٹلوں ؛ پبلک ؛ جگہوں ؛ چوراہوں اور نمایاں مقامات ہوائی اڈوں ؛ بس اسٹیشنوں اور ریلوے اسٹیشنوں کو بھی ایسے شرمناک مناظر سے نہیں بخشا گیا ہے۔ فحش تصاویر والے مبائل سیٹ ؛ انٹرنیٹ سے جڑے ہوئے مبائل کنکشن اور انٹر نیٹ کے ذریعہ پوری دنیا میں پھیلنے والی بے حیائی و بے شرمی سے ہر سنجیدہ فرد بے چین اور پریشان ہے۔ موبائل کی ایجاد اور ہر کس و ناکس تک اس کی رسائی نے معاشرت پر بڑا گہرا اثر چھوڑا ہے اور جدید تہذیب اور کالج کی مخلوط تعلیم نے تو سونے پہ سہاگہ کا کام کیا ہے۔ اب والدین کے ساتھ ساتھ لڑکوں اور لڑکیوں بلکہ چھوٹے بچوں کے پاس بھی موبائل پہنچ چکا ہے۔ ماضی قریب میں جس گھر میں اگر فون کی گھنٹی بجتی تھی تو اس کو عورت یا گھر کی لڑکی نہیں اٹھا سکتی تھی۔ کیونکہ اس وقت تک عورت کی قدر و منزلت تھی اس کا وقار و دبدبہ تھا اس کی عزت و عصمت کا احساس موجزن تھا اور اس کی آواز کو بھی عورت سمجھا جاتا تھا۔ لیکن آزادء نسواں کے فریب اور تہذیب جدید کے مسموم ماحول ؛ کالج کی مخلوط تعلیم اور اخلاق سوز کتابوں ؛ رسالوں اور میگزینوں کی بدولت ؛ حجاب و نقاب ؛ عفت و حیا اور شرم و جھجھک رخصت شد ؛ احباب ہوں اغیار ہوں ؛ اپنے ہوں پرائے ہوں ؛ کسی سے بھی گفتگو میں نہ شرعی حدود و قیود رہیں۔ اور نہ ہی باتوں میں سختی و درشتی رہی۔ لگاوٹ ؛ پیار ؛ تواضع و انکسار سے باتیں کرنا ترقی کی معراج سمجھا اور تصور کیا جانے لگا اور اس آزادی کو ملکی و قومی ضرورت سمجھ کر اپنے ذہن و دل کو فریب دیا جاتا رہا ہے۔ سنجدہ فکر اور شعور رکھنے والے بڑوں ؛ بزرگوں کی طرف سے نئی نسلوں کو اگر کچھ اخلاقی باتیں بتلائی اور گْر کی باتیں سکھائی جاتی ہیں۔ تو نئی نسل ان ہدایات پر عمل کرنے کے بجائے الٹے ان کا مضحکہ اڑاتی ہے۔ کیونکہ وہ جس تہذیب میں پلے بڑھے ہیں وہاں کا ماحول یہی تھا مغربی تہذیب کی مخلوط تعلیم نے اسلامی تہذیب و تمدن پر زبردست حملہ کیا ہے۔ عوام الناس کے ساتھ ساتھ سنجیدہ و باشعور طبقہ پڑھا لکھا حلقہ بھی ,,دام ہم رنگ زمیں,, ہوکر ہواؤں کے دوش پر اڑا جا رہا ہے زبان میں تبدیلی لباس میں تغیر اخلاق و عادات میں فرق اور رہن سہن میں تفاوت سے کس کو انکار ہو سکتا ہے۔ اپنے رکھ رکھاؤ میں تبدیلی گھروں میں ڈش انٹینا اور ٹی وی وغیرہ کے وجود کو یہ کہہ کر خود فریبی میں مبتلا کیا جا رہا ہے کہ بچے مانتے نہیں لیکن یہ تنشنہ جواب آخرت میں بھی کام دے سکے گا ؟ زنا ؛ شراب ؛ نغمہ و رقص ؛ عیش و نشاط ؛ ٹیلی ویڑن ؛ ڈش انٹینا ؛ ٹی وی ؛ وی سی آر ؛ ریڈیو ؛ آڈیو ؛ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے شانہ بشانہ موبائل کی ہولناکیاں اور ہلاکت آفرینیاں اپنی منزلوں کو تجاوز کرچکی ہیں۔ اب مبائل فون صرف بات کرنے کا ایک آلہ نہیں بلکہ بیک وقت فون بھی ہے ؛ کیمرہ بھی اور ریڈیو بھی ہے۔ ایف ایم بھی ہے ؛ آرولڈ بھی ہے۔ انٹرنیٹ سسٹم بھی ہے ؛ ڈاک بھی ہے ؛ مکاتبت و مراسلت کا ذریعہ بھی ہے اور ڈائری بھی ؛ گھڑی بھی ہے اور الارم بھی ؛ ریمائنڈر بھی ہے اور کیلکو لیٹر بھی ہے۔ ٹیپ ریکارڈ بھی ہے اور اور کھلونا بھی۔ غرض انسانی طبائع کو جس چیز سے دلچسپی ہو اس کا سامان ایک چھوٹے سے مبائل میں فراہم ہے۔
شاعر کی زبان میں
ابر بہار قوس و قزح سرخء شفق
سب جلوہ زا ہیں زہرہ نگاروں کے شہر میں
جاننا چاہیے کہ سائنسی نقطہ نظر سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ مبائل فون منشیات کی طرح صحت کے لیے بھی نقصان دہ ہے اور مستقل 15 سالوں تک استعمال کرنے سے دماغ میں ٹیومر (رسولی) کے ہونے کا خطرہ پیدا ہوسکتا ہے اس کے علاوہ مبائل فون کی شعائیں بھی بہت زیاہ نقصان دہ ثابت ہوئی ہیں۔ ان شواہد کی روشنی میں ضرورت ہے کہ اس سے بچا جائے بالخصوص بچیوں اور عورتوں کو مبائل کی وبا سے دور رکھا جائے ؛ کیوں شیطان انسان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے اور نوجوان نسلوں کے اخلاق کو تباہ و برباد کرنے میں مبائل کا بہت بڑا دخل ہے۔ صحت کے عالمی مرکزی اداروں حکومت اور سنجیدہ فکر رکھنے والوں کو مبائل کے ذریعہ پھیلنے والی بیماریوں کا سد باب کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف تہذیب و معاشرت کے علمبرداروں ؛ اصلاح معاشرہ کا فریضہ انجام دینے والوں اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی خدمت کرنے والوں کو بھی اس پر ہمہ وقت متوجہ رہنے کی ضرورت ہے”۔ اللّٰہ جزائے خیر دے جامع مسجد محمد مندھار گوتریاں کے اراکین کمیٹی کو جنہوں نے اپنی ذمہ داریوں کو انجام دیتے ہوئے حسب دستور سابق امسال بھی اس اہم عنوان کے تئیں بتاریخ 14 شعبان المعظم 1445ھ بمطابق 25 فروری 2024ئ بروز اتوار ؛ زیر صدارت حضرت مولانا علی اکبر خاں صاحب دامت برکاتہم العالیہ اہم ترین اصلاحی پروگرام منعقد کیا ؛ جس میں خطہ کے دو معروف علماء کرام حضرت مولانا غلام محی الدین قاسمی صاحب مدظلہ العالی سابق استاذ حدیث جامعہ ضیاء العلوم پونچھ اور حضرت مولانا قاری جمیل احمد ضیائی صاحب مدظلہ مدرس جامعہ ضیائ العلوم پونچھ کو مدعو کیا۔ پروگرام کا آغاز جامع مسجد محمد مندھار کے امام و خطیب مولانا قاری سجاد احمد ضیائی قاسمی صاحب کی نظامت میں صبح نو بجے مکتب کے بچوں کی تلاوت ؛ نعت النبی ؛ تقاریر اور مکالموں پر مشتمل قابل تعریف پروگرام سے رہا ؛ بلاشبہ محنت شاقہ کے لیے امام صاحب مبارکباد و تحسین کے مستحق ہیں "اللّٰہم زد فزد”۔ لگ بھگ گیارہ بجے حضرت مولانا مفتی محمد اکرم ضیائی صاحب امام و خطیب جامع مسجد عائشہ سوکڑ و سابق استاذ جامعہ ضیاء العلوم پونچھ کی نظامت میں دوسری نشست کا آغاز حافظ محمد عرفان سلمہ متعلم جامعہ ضیائ العلوم پونچھ کی تلاوت سے ہوا۔ بعدہ مولانا قاری شمس الزماں صاحب فاضل جامعہ تعلیم الدین ڈابھیل نے دلکش آواز میں نعت النبی سے سامعین کے قلوب کو منور کیا اور پھر حضرت مولانا غلام محی الدین قاسمی صاحب مدظلہ نے توحیدوسنت اور محبت رسول پر انتہائی مؤثر اور جامع بیان فرمایا۔ بعدہ حافظ محمد عرفان سلمہ نے اپنی خوبصورت آواز میں نعت النبی سامعین کی سماعتوں کی نظر کی ؛ اور پھر محسن قوم و ملت حضرت الاستاذ مولانا غلام قادر صاحب دامت برکاتہم العالیہ کے نقش جمیل صاحبزادے حضرت مولانا قاری جمیل احمد ضیائی صاحب مدظلہ سامعین کے روبرو ہوئے آں محترم کے تفصیلی خطاب میں معاشرتی بگاڑ اور اہل علم کی ذمہ داریاں ؛ اصلاح معاشرہ کی ضرورت و افادیت ؛ احساس ذمہ داری ؛ دوسروں کی بھی فکر کریں ؛ ہمارا کام فقط کوشش کرنا ہے ؛ بھلائی کا حکم دیتے رہیں۔ اللّٰہ کی گرفت سے بچا جائے ؛ ذمہ داریوں سے پہلو تہی کا انجام ؛ فکر انگیز صورتحال ؛ ہمیں اپنی ذمہ داری سمجھنی ہوگی ؛ ارتداد کے واقعات اور ہمارا قصور ؛ ہر گھر کو مدرسہ اور مکتب سے جوڑا جائے ؛ متاع ایمان کا تحفظ ؛ مبائل فون اور نشے کی تباہ کاریاں ؛ داعی کا اہم وصف وغیرہ اہم مہم مسائل پر انتہائی جاندار اور مؤثر خطاب فرمایا۔ ہم اہلیان مندھار اس بات پر اللّٰہ تعالٰی کے حضور سجدہ شکر بجا لاتے ہیں کہ اس سرحدی علاقہ میں چند مخلصین کی دعوت پر جماعت کے فخر مفخر دو علماء کرام اور حفاظ تشریف لے آئے اور تلاوت کلام اللّٰہ شریف نعت النبی اور فکر انگیز بیانات سے سامعین کے قلوب کو منور کیا۔ رب تعالٰی دارین میں بہترین بدلہ عطا کرے۔ ناظم پروگرام مفتی محمد اکرم صاحب نے دوران نظامت یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ اسلامی تعلیم کا بنیادی مقصد انسانی معاشرہ کی اصلاح کرنا ہے اور اس طرح اصلاح کرنا ہے کہ دنیا میں تمام انسان امن و امان کی زندگی بسر کریں اور اس طرح زندہ رہیں کہ اخلاق کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوٹے اور آخرت کی لامتناہی زندگی کے لیے پورے اخلاق و تقویٰ کے ساتھ تیاری کریں کہ اللّٰہ رب العزت ان سے راضی ہو ، فرمایاکہ اسلامی تعلیم کا یہ بنیادی مقصد صرف اس طرح سے حاصل ہو سکتا ہے کہا للہ م تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہم رسول کے اْسوہ حسنہ کی پیروی کرتے ہوئے یہ معلوم کریں کہ آپ نے معاشرہ کی اصلاح کس طرح کی تھی۔
آخری بات : مندھار کی دھرتی پر اللّٰہ رب العزت کا یہ بے پایاں فضل و احسان رہا ہے اس خطہ ارضی سے ایسے ایسے بندگان خدا پیدا ہوئے کہ جن سے خطہ میں خدمات دین کا ایک سلسلہ قائم ہوا جن کے اخلاص و عمل راہِ خدا میں قربانی ذاتی زندگی میں تقویٰ و احتیاط اور خشیت الٰہی کے حالات ان کے زمانوں میں اور بعد میں آنے والے وقتوں میں بھی مردِ مومن کی زندگی کا اْسوہ بنے۔
اور اس ربانی و روحانی سلسلہ سے سب کو فیض پہنچا اور پہنچ رہا ہے۔ اسی سلسلہ کی ایک اہم کڑی خطہ پیرپنجال کی عبقری شخصیت ؛ امام اہل السنہ والجماعہ ؛ استاذالعلمائ حضرت مولانا غلام قادر صاحب مدظلہ جن کی خدمات بدر کامل کی طرح ہویدا ہیں ؛ حضرت والا کا وجود خطہ میں انعام خداوندی ہے۔ حضرت والا نے پروگرام میں شرکت کا وعدہ فرمایا تھا لیکن صحت کی ناسازی کی وجہ سے تشریف نہ لاسکے اللّٰہ پاک سلامت رکھے۔ صاحبزازدہ حضرت مدظلہ جناب قاری جمیل احمد صاحب زیدہ مجدہ نے ترجمانی کی جن کی تشریف آوری پر اہل محلہ ناقابل بیان خوشی سے سرشار ہیں ؛ اللّٰہ رب العزت آں محترم کو شایان شان بدلہ عطا کرے اور والد عظیم کی طرح رب تعالٰی ابنان حضرت سے بھی مطلوب کام لے۔ رحمت و برکت کے ساتھ حیات خضر بخشے اور اہل خطہ کو اس خانوادہ کی قدر و منزلت جاننے اور قدر دانی کی توفیق عطا کرے ؛ جامع مسجد محمد مندھار گوتریاں کے مخلص اراکین مبارکبادی کے مستحق ہیں کہ جن کی مخلصانہ کوششوں سے یہ قابل تعریف پروگرام بحسن و خوبی اختتام پذیر ہوا۔ اور دعا ہے کہ اللّٰہ پاک اہل محلہ کو اس خانہ خدا کو سجدوں سے آباد رکھنے کی توفیق دے ؛ اس کے منبر و محراب سے یونہی توحید و سنت کے زمزمے پھوٹتے رہیں ؛ دعوت و اصلاح کا یہاں سے مطلوب کام انجام پائے اور یہاں کی اصلاحی مجالس کے ذریعہ اٹھنے والی قرآن و حدیث کی صدا خطہ میں ہدایت کے پھیل جانے کا ذریعہ بنے ؛ اللّٰہ رب العزت جامع مسجد محمد کے اصلاحی پروگراموں اور مسجد و مکتب کی دیگر ضروریات میں دامے ؛ درمے ؛ سخنے ؛ قدمے تعاون کرنے والے تمام معاونین کو اللّہ رب العزت شایان شان بدلہ عطا کرے۔ اہلیان مندھار کی حاجات ضروریہ کو خزانہ غیب سے پورا کرے اور ہر ایمان والے کو اسلامی نقشوں میں زندگی اور خاتمہ بالخیر فرمائے۔
٭٭٭