اس دور میں شعبہ صحت کا فعال ہونا بہت ضروری ہے

0
0

سلمی راضی

صحت کے شعبہ میں بہتری اور ہر ایک تک اس کی مفت سہولہات پہونچانے کے لئے حکومت نے بڑا قدم اٹھایاہے۔ایوشمان بھارت ا سکیم کے تحت گولڈن کارڈ، جس کے پاس بھی ہوگاوہ ملک کے کسی بھی ہسپتال سے پانچ لاکھ روپہ تک کااپنا علاج مفت کرواسکتاہے۔لیکن ایوشمان بھارت اسکیم ہویاکہ اس طرح کی دوسری منافع بخش اسکیموں سے لوگ اسی وقت مستفید تب ہوسکتے ہیں جب ان کے پاس اس کی پوری جانکاری ہوگی۔ پوری طرح جانکاری کا نہ ہونا مستحقین کو ان کے حقوق کی فراہمی میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ ملک بھر کے ساتھ ساتھ جموں وکشمیر کے ضلع پونچھ میں بھی ایوشمان اسکیم کے تحت بہت بڑی مقدار میں گولڈن کارڈ بن چکے ہیں۔اب یہ اسکیم چھوٹے بچوں تک شروع کی جاچکی ہے۔ضلع پونچھ کے تحصیل منڈی جس کی آبادی ایک لاکھ سے زائید ہے، غلام احمد میموریل سب ضلع ہسپتال، منڈی کے زیر اہتمام سلوتری تا ساوجیاں گگڑیاں لورن بٹل کوٹ تک اس کی شاخیں پھیلی ہوئی ہیں۔ جہاں پر محکمہ صحت کے کارکنان سرکار کی جانب سے چلائی جارہی اس اسکیم کااستفادہ دینے کی غرض سے لوگوں کے گھروں تک ابھی گولڈن کارڈ بنانے کی جانکاری میں جٹے ہوے ہیں۔ جس میں آشا ورکروں سے بے درییغ رضاکا رانہ خدمت لی جارہی ہے تاکہ تمام افراد اس اسکیم سے فائیدہ حاصل کرسکیں۔
اس حوالے سے متعدد لوگوں کی شکایات بھی ہے کہ اس گولڈن کارڈ سے عام آدمی کو کوئی فائیدہ نہیں پہونچ رہا ہے۔اس سلسلے میں مقامی باشندہ امتیاز احمد بانڈے جن کی عمر 45سال ہے،نے بتایاکہ یہاں جو کوئی بھی منڈی میں چک اپ کروانے آتاہے وہ باہر سے دوائیاں لینے پر مجبور ہوتاہے جبکہ اس کے پاس پیسے نہیں ہوتے ہیں۔جالانکہ اس کے پاس گولڈن کارڈ بھی ہوتاہے۔پھر بھی اسے باہر سے اونچی قیمت پر دوائیاں خریدنی پڑتی ہیں۔اس سلسلے میں ایک اور مقامی ارشاداحمد جن کی عمر 37 سال ہے،نے بتایاکہ غریبوں کو کم قیمت پر دوائیاں دستیاب کرانے کے مقصد سے مرکزی حکومت کی جانب سے شہر سے لیکر گاؤں تک پردھان منتری جن اوشدھی کندر کھولے گئے ہیں جس کو مقامی زبان میں مودی کی دوکان بھی کہتے ہیں۔ اس کندر پر بھی بہت سی دوائیاں نہیں ملتی ہیں۔خاص طور پر مہنگے علاج والی دوائیاں تو بلکل ہی نہیں ملتی ہیں۔ جس کی وجہ سے غریب مشکلات میں ہیں۔ اس کے علاوہ جمیل احمد 35سال اورتنویر احمد تانترے 34سال، نے سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوے کہا کہ ڈاکٹر مریض کا سنجیدگی سے چک اپ کرنے کی جگح نارمل دیکھ ریکھ کے بعد پونچھ، راجوری، جموں یاسرینگر ریفر کردیتے ہیں۔ جس کا خرچ غریب برداشت نہیں کر پاتے ہیں۔ جانچ نمونوں کے حوالے سے ایک مقامی باشندہ کبیر احمد جن کی عمر 40 سال ہے،نے الزام لگایا کہ پونچھ اور منڈی میں غیر قانونی لیبارٹریاں کھل گئی ہیں اور کھل رہی ہیں۔ جہاں ان غریبوں کے ساتھ ٹیسٹ کے نام پر لوٹ کھسوٹ کی جارہی ہے۔
غریض دسیوں ایسے مسائیل سے ہر روز غریب عوام جوجھ رہی ہے۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہو رہاہے؟ اگر سرکار غریبوں کی دلہیز تک سہولہات دینے کی وعدہ بند ہےتوسرکاری ملازمین کیوں عوام کی رہنمائی نہیں کرتے ہیں؟ کون اس نظام کو درست کریگا؟ حلانکہ سماجی کارکن فاروق احمد خان مانتے ہیں کہ پہلے کے مقابلے اس ہسپتال کا نظام بہت ہی بہتر ہواہے۔یہاں ایکسرے، الٹرا ساؤنڈ، لیبارٹری، اپریشن تھیٹر ودیگر شعبہ جات میں بہتر کام ہورہے ہیں اور غریب لوگ استفادہ کررہے ہیں۔انہوں نے کہاکہ یہاں 98 فیصدی غریب ہی اپنا علاج کرانے آتے ہیں۔یہاں گولڈن کارڈ کا استعمال بھی بہتر طور پر کیاجارہاہے۔ جو مریض یہاں داخل ہوتا ہے، اسے دوتین ایام علاج کروانے یاکوئی سرجری وغیرہ کروانے پر گولڈن کارڈ کا فائیدہ ملتاہے۔یہاں جو بھی ڈاکٹر ہیں وہ بہت اچھی طرح سے دیکھ بال کرتے ہیں۔غرض یہاں نظام پہلے سے بہت بہتر ہے۔مزید بہتری کی بھی اشد ضرورت ہے۔
اس حوالے سے ایکسرے اپریٹر ریاض احمد سے بات ہوئی تو ان کا کہناتھاکہ ہماراکام یہاں سے ایکسرے کا فوٹو بناکر بڑے ہسپتال بھیجنا ہوتا ہے۔پھر وہاں کی لیبارٹری سے جورپورٹ آتی ہے ہم اسی کو دے دیتے ہیں۔ہم نہ ایکسرے بناکر دیتے ہیں اور نہ رپورٹ دیتے ہیں۔بلکہ جیسے ہمیں آن لائین موصول ہوتی ہے ہم اسی کے مطابق کام کرتے ہیں۔ریفر کرنے کے حوالے سے ڈاکٹروں سے بات کی تواپنا نام شائع نہیں کرنے کی شرط پر کئی ڈاکٹروں نے بتایا کہ کوئی بھی ڈاکٹر مریض کے لئے ہرممکن اچھا سوچتاہے کیوں کہ ایک ڈاکٹر کے لئے سب کچھ اس کا مریض ہی ہے۔ایک ڈاکٹر ہی بہتر جانتاہے کہ کس مریض کے کس درد کا علاج یہاں ممکن ہے اور کس درد کے علاج کے لئے بڑے ہسپتال ریفر کرنا بہتر ہوگا تاکہ مریض کو جلد شفا مل سکے۔
اس سارے معاملہ کے حوالے سے بلاک میڈیکل افیسر،منڈی ڈاکٹر نصرت النساء بھٹی نے بتاکہ یہاں دن رات ہم نے اپنے ڈاکٹروں پر نگرانی رکھی ہوئی ہے۔ وہ اپنی بساط کے مطابق کام کررہے ہیں۔ یہاں گولڈن کارڈ کا استعمال بڑے شدومد سے کیاجار ہے۔ شرط یہ ہے کہ اس کارڈ سے استفادہ حاصل کرنے کے لئے مریض کا ہسپتال میں داخلہ بہت ضروری ہے۔ہر ایک چیک اپ کروانے والوں کو گولڈن کارڈ نہیں مل پاے گا۔ جَن اشودی دوائی کی دوکان پر 80فیصدی ڈسکاؤنٹ پر دوائیاں ملتی ہیں۔ کچھ تکنیکی خرابی اور دوائی فروش کے ساتھ معاملہ کی وجہ سے یہاں ادویات کم ضرورہیں۔لیکن جوں ہی یہ معاملہ حل ہوتاہے ادویات وافر مقدار میں رکھی جایگی۔بی ایم او کے مطابق یہاں 80فیصدی سے زیادہ گولڈن کارڈ بن چکے ہیں اور لوگ اس کا فائیدہ بھی حاصل کررہے ہیں۔محکمہ دن رات اس کوشش میں ہے کہ سرکار کی جانب سے چلائی جارہی ہر ایک اسکیم کا فائیدہ مستحقین تک پہونچ سکے۔ہم ہسپتال سے مفت ادویات بھی تقسیم کرتے ہیں اور وقفہ وقفہ پر کیمپ بھی لگاکرمتعدد امراض میں ملوث افراد کی جانچ کے بعد ادویات بھی تقسیم کرتے ہیں۔ سرکار اور محکمہ ہلتھ کے ارکین کے ساتھ ساتھ عوامی نمائندوں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ براے راست مستحقین ہرا سکیم سے مستفید ہوسکیں۔ لیکن کہیں جانکاری کا فقدان اور کہیں نظام کا بروقت منظم نہ ہونا عوام کے لئے باعث تشویش بن جاتاہے۔
بہرحال سرحدی ضلع پونچھ تحصیل منڈی کا سب ضلع ہسپتال ہویاپھر کہیں سب سنٹریا پرائیمری ہلتھ سنٹر، یہ سب عوام کو بہتر سہولیات دینے کے لئے مزید اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں۔نہ صرف بنیادی ڈھانچہ کو بہتر اور مضبوط بنائں بلکہ ہسپتال کا عملہ مریضوں کے ساتھ نرم رویہ بھی اختیار کرنے کی کوشش کرے۔ اس دور جدید میں موجودہ سرکار یا لیفٹیننٹ گونر انتظامیہ کے خوابوں کی تعبیر سچ کرنے میں ہسپتال عملہ ہی کارگر رول اداکرسکتاہے۔ لیکن یہ سب کچھ اکیلے ممکن نہیں ہے۔ اگر ہسپتال کے نظام کو بہتر کرنا انتظامیہ کی ذمہ داری ہے تو یہاں کے عوامی نمائندے، سماجی کارکن اور خود عوام کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بھی ہسپتال انتظامیہ کا مشکلات میں ہاتھ بٹائے۔اس کو صاف رکھنے میں مدد کرنااپنافرض سمجھیں۔دواؤں کی کمی ہونے پر ہنگامہ کرنے یا الزام تراشی کی بجائے مل کر مسلہ کا حل تلاش کرے۔ تبھی ممکن ہے کہ ایک اچھے صحت مرکز میں اچھانظام قائم ہوگا۔ (چرخہ فیچرس)

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا