اسکولوں کی مندہم عمارت جوبرسوں سے تعمیر نہ ہو سکی

0
0

 

 

 

مشتاق احمد ملک
منڈی،پونچھ

مرکز اور تمام ریاستی حکومتیں بچوں کے بہتر مستقبل کے لئے بڑے پیمانے پر پرائمری، سکنڈری اور ہائر سکنڈری اسکول کھولتی ہے۔ ان اسکولوں کا سارا خرچ خود حکومت اٹھاتی ہے۔ بات چاہے اسکول کی عمارت کی ہو یا اساتذہ کی تنخواہ کی یا پھر بچوں کی کاپی کتاب کی ہو، سب کچھ حکومت کے خزانے سے خرچ کیا جاتا ہے۔ دوسری جانب پرائیویٹ اسکول بھی چلائے جاتے ہیں۔ جس کا سارا خرچ والدین کو ادا کرنی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غریب والدین اپنے بچوں کو ان پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھانے کی جگہ سرکاری اسکولوں میں داخلہ دلاتے ہیں۔سرکاری اسکولوں کا سارا خرچ حکومت کی جانب سے اٹھانے کے باوجود ان اسکولوں کی حالت کسی سے چھپی نہیں ہے۔خصوصاًملک کے دور دراز علاقوں کے سرکاری اسکولوں کی عمارتوں کی حالت سب سے بدتر ہے۔ آج کے اس جدید دور میں بھی خستہ حال گورنمنٹ ا سکولی عمارتوں کے کسی بھی وقت گرنے سے سنگین حادثے رونما ہونے کے خدشے بنے ہوئے ہیں جبکہ کچھ اسکولوں میںبجلی اور پانی کی سہولت بھی موجود نہیں ہے۔ گورنمنٹ اسکولوں کی عمارتیں انتہائی خستہ حال اور ٹوٹی پھوٹی ہیں،جو کسی بھی وقت گر سکتی ہیں۔ یہی تعلیمی ادارے دنیا کو جہالت سے نکال کر روشنی کی طرف لاتے ہیں ۔ان تعلیمی شعبوں کا یہ حال ہے تو دیگر نظام کس قدر بدحال ہونگے؟ گورنمنٹ اسکولی عمارتیں خستہ حالت کا شکار ہیں جس طرح سے قدیم ترین زمانے کے اندر اسکولی عمارتیں تعمیر نہ ہونے کی وجہ سے طلب علم کھلے آسمان کے نیچے تعلیم حاصل کیا کرتے تھے۔ ٹھیک اسی طرح آج کے اس جدید دور میں بھی تعلیم حاصل کر رہے ہیں ،آخرایسا کیوں؟

تعلیم کے وزیر مملکت نے لوک سبھا میں ایک تحریری جواب میں یہ اطلاع فراہم کرائی تھی کہ قومی تعلیمی پالیسی 2020 (این ای پی) کا 29 جلائی 2020 کو اعلان کیا گیا تھا۔اس کے تحت اسکولی تعلیم کے ساتھ ساتھ تکنیکی تعلیم سمیت اعلی تعلیم میں النوع اصلاحات تجویز کی گئی تھی ۔بچوں کے بہتر مستقبل کے لئے ایک طرف حکومت اسکیمیں بنا رہی ہے،لیکن اگر زمینی سطح پر ان تمام اسکیموں کو دیکھا جائے تو یہ کہیں بھی نظر نہیں آئے گی۔ ایسی تمام اسکیموں سے دور دراز کے پسماندہ علاقوں میں کسی بھی قسم کی تبدیلی نظر نہیں آرہی ہے ۔کرونا وائرس کا دور ہو یا موجودہ حالات، اس خستہ حال تعلیمی نظام سے دیہی علاقوں کی غریب اور پسماندہ عوام کے بچے ہی سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں ۔جن کے پاس کسی بھی قسم کے اسباب موجود نہیں ہیں۔ ملازمین اور امیر طبقہ وسائل اور اسباب کو دیکھتے ہوئے شہروں میں منتقل ہو کر بڑے بڑے پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں اپنے بچوں کو تعلیم دلواتے ہیں جبکہ غریبوں کے بچے ان تباہ حال سرکاری اسکولوں کی زینت بنے ہوئے ہیں ۔دیگر دیہی علاقوں کی طرح ایسی ہی صورتحال جموں کشمیر کے دیہی علاقوںمیں بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جموں و کشمیر کے دیہی علاقوں کے غریبوں کے بچے پسماندگی کی طرف جا رہے ہیں۔ کرونا وائرس کے بعد ایک طرف سے سرکار ا سکول چلو کی موہم چلا رہی تھی جبکہ اسکولوں کی عمارتیں انتہائی خستہ حال اور ٹوٹ پھوٹ کر درہم برہم ہو چکی ہیں۔ کیا اس بات کا کسی کے پاس جواب ہے کہ ان ننھی ننھی بچیوں اور بچوں کی تعلیم ایسی تباہ حال عمارتوں میں کس طرح ممکن ہو گی؟ غرض ایسا لگتا ہے کہ نظام تعلیم اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہا ہے۔

آج میں آپ کو جموں و کشمیر کے ضلع پونچھ کی تحصیل منڈی جو ہیڈ کوارٹر سے بیس کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے۔ جہاں سے قریب چار سے پانچ کلومیٹر بلاک لورن کی پنچایت لوہل بیلہ کے دو گاؤں ڈوگیاں اور سٹیلاں کی زمینی حالات سے روبرو کراتا ہوں۔ ان دونوں گاؤں میں الگ الگ دو مڈل اسکول ہیں۔ وارڈ نمبر چار میں گورنمنٹ مڈل اسکول سٹیلا اور وارڈ نمبر پانچ گاؤں لوہل بیلا میں بھی گورئمنٹ مڈل اسکول ہے۔ یہ دونوں اسکول آٹھویں جماعت تک ہیں۔ جب میں نے وہاں کے مقامی ہیڈ ماسٹر ریاض احمد شیخ ،جن کی عمر 35 سال ہے، ان سے اس اسکول کے بارے میں بات چیت کی تو انہوں نے بتایا کہ میں گورنمنٹ اسکول ڈوگیاں کے اندر ہیڈ ماسٹر کی ڈیوٹی انجام دے رہا ہوں۔ یہ اسکول پنچایت لوہل بیلہ کے گاؤں ڈوگیاں وارڈ نمبر 5 کے مقام پر قائم ہے ۔جو تعلیمی زون منڈی کے زیر اہتمام ہے۔ اس اسکول کے اندر کل چار اساتذہ ہیں اور 60 طالب علم ہیں۔ اس اسکول کی پرانی والی عمارت لگ بھگ 35 سال پرانی بنائی ہوئی ہے جو آدھی پچھلے چار سالوں سے گر کر زمین بوس ہو چکی ہے۔ اسی پرانی والی عمارت کے دو کمروں کو 2022 میں دوبارہ ٹین کی چھت ڈال کر دو کمروں کو تیار کیا گیا تھا۔جس میں آج طالب علم بڑی مشکل کے ساتھ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ انہی کمروں کے ساتھ ایک ٹوٹا ہوا کمرہ ہے اور اس کے ساتھ برانڈا بھی ٹوٹ کر زمین بوس ہو چکا ہے۔ اسی پرانی والی عمارت کے ساتھ میں تین اور کمرے بنائے گئے تھے جن کی صرف دیواریں تعمیر کی گئی۔ اس کے بعد ان دیواروں پر چھت نہ ڈالنے کی وجہ سے وہ بھی اس پرانی والی عمارت کے ساتھ میں شدید مون سون کی بارشوں اور نومبر سے لے کر مارچ تک کی سخت برف باری کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کر زمین بوس ہو چکی ہیں۔اس اسکول کے اندر آج کل دو کمرے ہیں ایک میں سبھی اسٹاف نے کتابوں کے ساتھ میں دیگر سمان رکھا ہوا ہے اور دوسرے کمرے میں پہلی جماعت سے لیکر آٹھویں جماعت تک کے بچے اور بچیاں بہت ہی مشکل کے ساتھ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

نہ تو اس اسکول کا سہی راستہ ہے اور نہ ہی اس اسکول کے اندر بجلی پانی کے ساتھ ساتھ پچوں کے کھیلنے کیلئے گرائونڈ ہے ۔ہیڈ ماسٹر صاحب کا مزید یہی کہنا ہے کہ میری زیڈ ای او، سی ای او ، ڈسٹرکٹ انتظامیہ،ایل جی انتظامیہ اور سرکار سے یہی مودبانہ گزارش ہے کہ اس اسکول کی طرف توجہ دی جائے اور جلد از جلد ان کا کام شروع کروایا جائے۔یہاں پر موجود باورچی روبینہ اختر جن کی عمر 24 سال ہے جو ایک کمرے میں میڈے میل یعنی کھچڑی بناتی ہین، ان کہنا ہے کہ مجھے کھانا بناتے وقت بہت ڈر لگتا رہتا ہے کیونکہ عمارت گرنے کا خطرہ رہتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جب میں اسکول آتی ہوں تو لوگ مجھے کہتے ہیں آپ اسکول مت جایا کریں، یہ عمارت کسی بھی وقت گر سکتی ہے۔ بہت سارے والدین اپنے بچوں کو صرف اس لیے اسکول سے نکال کر لے گئے ہیں کیونکہ یہاں عمارت گرنے کا اندیشہ تھا۔ اب عمارت زمین بوس ہو چکی ہے۔ یہاں خستہ حال ایک کمرے میں کیسے تعلیم ممکن ہو گی؟ لیکن پھر بھی میں اپنی زمہ داری پر ان بچوں کوا سکول تک لاتی ہوں اور انہیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کرواتی ہوں کیونکہ یہ بچے اور بچیاں ہمارا مستقبل ہیں۔ جب میں نے اس سکول کے اندر پڑھنے والے طالب علموں رہان مجید، ظہیر افضل، راضیا مجید، تسکین اہمد، تصدق فاروق، عادل رشید، مسباہ طارک، ہادیہ عارف وغیرہ سے بات چیت کی تو یہ تمام طالب علم مختلف جماعتوں کے اندر پڑھ رہے ہیں۔ ان تمام کا کہنا ہے کہ جب بارش ہوتی ہے تو ہماری چھٹی ہو جاتی ہے یا پھر جس دن بارش ہوتی ہے تو اس دن ہم اسکول ہی نہیں آتے ہیں۔ بیٹھنے کے لئے کمرے نہ ہونے کی وجہ سے یہاں پر ہم سب کھلے آسمان کے نیچے خستہ حال عمارت میں صبح کی دعا بھی کرتے ہیں اور بعد میں یہاں پر ہی ہماری کلاس بھی ہوتی ہے۔ یہاں جب زور دار بارش ہوتی ہے تو ہم بھیگ جاتے ہیں۔ ہمارے بستے وردی بوٹ کتابیں وغیرہ سب گیلے ہو جاتے ہیں ۔اساتذہ ہمیں کسی طرح کمرے کے اندر بیٹھانے کی کوشش کرتے ہیں تا کہ بارش سے بچ سکیں۔ لیکن ایک کمرے میں کیسے گزر ہو سکتی ہے؟ ان تمام طالب علموں نے بتایا کے نہ تو ہمارے اسکول میں جانے کے لئے سہی راستہ ہے اور نہ ہی بہترین عمارت اور نہ ہی کھیلنے کا میدان ہے۔ ہم آج بھی اسی قدیم ترین زمانے کے اندر تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔ان بچوں نے ڈسٹرکٹ انتظامیہ، ایل جی انتظامیہ اومحکمہ تعلیم سے مودبانہ گزارش کی کہ ان کے اسکول کا کام جلد از جلد لگوایا جائے تا کہ وہ بھی آسانی سے اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔

اس سکول کی بد حالی کو لے کر اسی گاؤں ڈوگیاں کے وارڈ نمبر 5 کے 23 سال کے نوجوان شہزاد احمد نے کہا کہ ایک طرف تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کی کوشش کے دعوے کئے جا رہے ہیں دوسری جانب اس اسکول کی عمارت بلکل زمین بوس ہو چکی ہے۔ بچے باہر بیٹھتے ہیں اور بارشوں کے دوران تو والدین گھر سے ہی بچوں کو نہیں بھیجتے ہیں ۔اب تک اس عمارت کی طرف سرکار نے کوئی بھی توجہ نہیں دی ہے۔وہ مایوسی کے ساتھ کہتے ہیں کہ انتظامیہ اور مرکزی حکومت کے جو دعوے ہیں وہ صرف خبروں تک ہی محدود ہیں۔ زمینی حقائق اس کے بر خلاف ہیں۔ کرونا وائرس ختم ہونے کے بعد سرکار کی طرف سے ا سکول چلو نام سے مہم چلائی گئی تھی۔ لوگ سوال کرتے ہیں کہ اس طرح کی خستہ حال عمارتوں میں بچے کس طرح تعلیم حاصل کر سکتے ہیں؟ آخرغریبوں کے بچوں کے لیے بنے یہ سرکاری اسکول بد حال کیوں ہیں؟ جہاں نہ بیٹھنے کے کمرے ہیں، نہ سر چھپانے کے لئے چھت، نہ کھڑے ہونے کی جگہ، نہ کھیلنے کے لئے گرونڈ اور نہ ہی پڑھانے کے لیے یہاں اساتذہ کی ممکل تعداد ہے۔ جب ہم اپنے بچوں کو اس خستہ حال گورنمنٹ اسکول کے اندر تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیجتے ہیں تو ہمیں یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں یہ ٹوٹی ہوئی عمارت ہمارے بچوں پر گر نہ جائے۔ شہزاد احمد کا مزید یہی کہنا ہے کہ ایک شہری کے طور پر میری زیڈ ای او منڈی، سی ای او پونچھ اور وزارت تعلیم کے ساتھ ساتھ ڈسٹرکٹ انتظامیہ ایل جی انتظامیہ اور سرکاری سے گزارش ہے کہ اس سکول کا جلدی سے کام شروع کر وایا جائے تاکہ اس اسکول کے اندر زیر تعلیم بچوں کو کسی بھی قسم کی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔وہی مقامی پینچ سلیمہ اختر جن کی عمر 38 سال ہے، انہوں نے بتایا کہ گورنمنٹ ا سکولوں کی عمارتیں انتہائی خستہ حال اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ اس گورنمنٹ اسکول ڈوگیاں کے اندر زیر تعلیم بچے اور بچیاں کھنڈرات میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ گزشتہ چار سالوں سے اس اسکول کی عمارت منہدم ہو چکی ہے۔ یہاں پہلے کے مقابلے میں بچے کم ہو رہے ہیں ۔ اس وجہ سے کہ اس سکول کی عمارت بلکل ٹوٹ پھوٹ کر زمین بوس ہو گئی ہے۔ یہ بچے اور بچیاں جب دھوپ ہوتی ہے تو باہر کھلے آسمان کے نیچے بیٹھ کر تعلیم حاصل کر لیتے ہیں۔ جب بارش ہوتی ہے تو والدین بچوں کوا سکول بھیجتے ہی نہیں ہیں۔ پینچ سلیمہ اختر کا کہنا ہے کہ نہ صرف یہ اسکول بلکہ دوردراز دیہی علاقوں کے ایسے تمام سکولوں کی طرف حکومت اور محکمہ کو توجہ دینی چاہئے تاکہ غریب کے بچے بھی بہتر تعلیم حاصل کر سکیں۔

ایک مقامی باشندے 28 سالہ نوجوان خلیل احمد شیخ کا کہنا ہے کہ ایک طرف تعلیمی نظام کو سرکار بہتر بنانے کے دعوے کر رہی ہے لیکن زمینی سطح پر اگر دیکھا جائے تو یہ دعوے نیوز تک ہی محدود ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم نے اس اسکول کی بدحالی کو لیکر اور اس کی تعمیر کو لیکر بہت بار میڈیا کے زریع سرکار سے گزارش کی، اس کے بعد بھی اس پر کسی قسم کی توجہ نہ دی گئی۔ سب سے پہلے اس اسکول کے اندر جانے کیلئے اسکول کی چاروں طرف سے راستہ ہی نہیں ہے جس سے گزر کر بچے اسکول تک آسانی سے پہنچ سکیں ۔اس اسکول کی عمارت 40 سال پرانی بنائی ہوئی ہے۔ اس کی چھت ٹین والی ہے۔ شدید بارش کی وجہ سے اس کے اندر سراخ ہو چکے ہیں ۔جس سے اسکول کے اندر پانی آجاتا ہے۔ 2017 میں اس اسکول کے اندر تین اور کمرے تعمیر کئے گئے تھے جن کے اوپر چھت نہ ڈالنے کی وجہ سے وہ بھی شدید بارش اور برف باری کی وجہ سے گر کر زمین کے اندر کھنڈرات میں تبدیل ہوچکے ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ اس اسکول کے اندر سہی ڈھنگ کے بیت الخلا (باتھ روم واش روم) وغیرہ بھی نہیں ہیں۔ نہ توا سکول کے اندر بجلی اور نہ ہی پانی دستیاب ہے ۔ خلیل احمد شیخ کہتے ہیں کہ اس حالت کا ذمہ دار محکمہ ہے ۔ جسے چاہئے کہ وہ اس جانب جلد توجہ دے تاکہ یہاں تعلیم حاصل کرنے والے بچے اور بچیاں بھی آسانی کے ساتھ تعلیم حاصل کر سکیں۔

جس زمین پر یہ اسکول بنا ہے اسکے مالک جلال دین شیخ ہیں۔ ان کے بھائی لال دین جن کی عمر 65 سال ہے، ان کا کہنا ہے کہ ہم نے اسکول کیلئے زمین اس لیے گورنمنٹ کو دی تھی کہ اس کے بدلے میں ہمارے بچوں کو اس اسکول میں نوکری ملے گی۔ نہ ہماری اس زمین کا ہمیں کوئی معاوضہ ملا اور نہ ہی ہمارے کسی بچے کو یہاں ملازمت ملی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم نے اس کے لئے فائل بھی دفتر کے اندر جمع کروائی ہے ۔ میری سرکاری اور ڈسٹرکٹ انتظامیہ سے گزارش ہیکہ ہماری زمین کے بدلے اس اسکول کے اندر ہمارے بچوں کوملازمت دی جائے۔اسی سلسلے میں نے مقامی چوکیدار محمد اسلم ، جن کی عمر 27 سال ہے ان دونوں اسکولوں کی بدحالی کو لیکر بات کی توان کا کہنا ہے کہ ایک طرف سرکار تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے دعوے کر رہی ہے دوسری جانب جموں کشمیر کے دور دراز اور پسماندہ علاقوں میں بنائے گئے گورنمنٹ اسکولوں کی عمارتیں انتہائی خستہ حال اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ ضلع پونچھ تحصیل منڈی کے بلاک لورن کی پنچایت لوہل بیلہ وارڈ نمبر 4،5 میں یہ گورنمنٹ اسکولی عمارتیں بلکل زمین بوس ہو چکی ہیں۔ یہ پسماندہ ہونے کے ساتھ ساتھ پہاڑی علاقے ہیں۔ کرونا وائرس کے بعد جموں کشمیر میں بھی دو تین سال سے تعلیم سے دور طلباء نے اسکولوں کا رخ کیا تو وہاں نظارہ کچھ اور ہی نظر آیا ۔کہیں عمارتیں خستہ حال، تو کہیںراستے بند، کہیں استاد ہی نہیں، تو کہیں طلباء ہی نہیں۔ غرض ایسا لگتا ہے کہ نظام تعلیم اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہا ہو۔ اس کشمکش نے جموں و کشمیر کے مستقبل کو تاریخ کر رخ کروایا ہے۔ کرونا وائرس ہو یا موجودہ حالات، اس خستہ حال تعلیمی نظام سے دیہی دور دراز کے علاقوں کے غریب اور پسماندہ عوام کے بچے ہی سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں ۔

وہ ان تباہ حال اسکولوں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ ہی وجہ ہے کہ جموں و کشمیر کے دیہی علاقوں کے غریبوں کے بچے پسماندگی کی طرف جا رہے ہیں۔ کئی سالوں سے ان دونوں اسکولوں کی عمارتوں انتہائی خراب اور زمین بوس ہو گئی ہیں ۔چوکیدار صاحب کا کہنا ہے کہ ہمیں یہ خوف رہتا ہے کہ یہ عمارتیں ہمارے بچوں کے اوپر گر نہ جائیں۔ ان دونوں اسکولوں کی عمارتوں کے چھت بھی ٹوٹ چکے ہیں۔ آج کے اس جدید دور اور ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل انڈیا میں بھی ہمارے بچے اور بچیاں اسی قدیم ترین دور کے اندر تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ایک طرف سرکاری یہ دعوے کر رہی ہے کہ ہم نے انڈیا کو ڈیجیٹل انڈیا بنایا ہے لیکن اگر دور دراز اور پسماندہ علاقوں کی بات کی جائے تووہ آج بھی قدیم دور کے اندر جی رہے ہیں۔ ان دونوں گاؤں کے اندر سڑک نہ ہونے کی وجہ سے ان کو دیکھنے کیلئے کوئی بھی سرکاری ملازم یہاں نہیں آتا ہے۔ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ کیا ان غریب بچوں کو ایسے ہی خستہ حال عمارت میں پڑھنے کے لئے چھوڑ دیا جائے؟ آخرمحکمہ کی بے حسی کا خمیازہ بچے کیوں بھگتیں؟(چرخہ فیچرس)

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا