ڈاکٹر محمد بشیر ماگرے
زمین میں فساد پھیلانے سے مراد اس کے قدرتی حسن کو تباہ کرنا ہے! اسلام انسانیت کی فلاح و بہبود سے وابستہ امور کو کار خیر قرار دیتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے کائنات ارضی میں انسان کو جہاں اشرف المخلوق بنایا ہے، وہیں پر اس کے سپرد اس کی زمعداریاں بھی زیادہ قرار دی ہیں۔ اللہ ہی نے اسے شرف بھی عطا فرمایا ہے اور ایک حسن کا پیکر بھی بنایا ہے! گنبد آبگینہ رنگ رنگ کو تمام تر ندورتوں کے ساتھ اسے عنایت کیا اس میں موجود تمام تر حیوانات، نباتات، و جمادات کو اس کے تابع کیا۔ اس کے گردو نواح میں جاری و ساری کار حیات اور اس سے وابستہ خیرو برکات کا نگران بنایا ہے۔انسان کی اس اعلیٰ و برتر حستی نے اس نظام حیات کو تشکیل دیتے ہوئے نسل انسانی سے لیکر تمام حیوانات ،نباتات،جاندار و غیر جاندار تمام ہی اجسام کی حفاظت و بقاء کیلئے ایک جامعہ قدرتی ماحول فراہم کیا جو ہر لحاظ سے مفید بھی ہے اور متوازن بھی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے؛
’’لوگو! کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے تمہارے لئے ان تمام چیزوں کو مسخر فرما دیا ہے جو آسمانوں میں ہیں اور زمین میں ہیں اور اس نے اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں تم پر پوری کردی ہیں۔اور لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے بارے میں جھگڑا کرتے ہیں بغیر علم کے اور بغیر ہدایت کے اور بغیر روشن کتاب کی دلیل کے‘‘۔(۱) اس نظام ہستی کے راں دواں رہنے میں ترتیب و توازن اور ربط و ضبط کا قائم رہنا ہی جزولانیفک ہے۔ سورہ یٰسین میں ارشاد باری تعالیٰ ہے’’ان لوگوں کیلئے بے جان زمین ایک نشانی ہے ہم نے اس کو زندگی بخشی اور اس سے غلہ نکالا جسے یہ کھاتے ہیں۔ہم نے اس میں کھجوروں اور انگوروں کے باغ پیدا کئے اور اس کے اندر سے چشمے پھوڑنکالے تاکہ یہ پھل کھائیں، ان کیلئے ایک اور نشانی رات ہے ہم اس کے اوپر سے دن ہٹا دیتے ہیں تو ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے اور سورج اپنے ٹکانے کی طرف چلا جارہا ہے یہ زبردست علیم ہستی کا باندھا ہوا ہے حساب ہے اور چاند اس کیلئے ہم نے منزلیں مقرر کردی ہیں یہاں تک کے ان سے گذرتا ہوا اور پھر کھجور کی سوکھی شاخ کی مانند رہ جاتا ہے ۔ نہ سورج کے بس میں ہے کہ وہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن پر سبقت لے جا سکتی ہے۔سب ایک ایک فلک میں تیر رہے ہیں‘‘۔(۲)۔ اس بر تر و بزرگ ہستی کی عطا کردہ بیش بہا نعمتوں سے مستفید ہونا اسی صورت ممکن ہے جب اس کی نعمتوں کی حفاظت کی جائے اور ان میں قائم توازن و ربط کو بگاڑنے کی کوشش نہ کی جائے مثلا کائنات کے قائم توازن و ربط کو بگاڑنے کی کوشش نہ کی جائے۔ کائنات کے سب سے چھوٹے زرے کو توڑ کر یعنی ایٹم کو توڑ کر ایٹم بم بنایا جاتا ہے جو ہیروشیما اور ناگاساکی کی تباہی اور انسانی ہلاکت خیزی کا موجب بنا ۔قوانین فطرت میں تبدیلی اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے قانون کی خلاف ورزی زمین پر فساد پھیلانے کے مترادف ہے ۔ اللہ نے کلام اللہ میں زمین پر فساد پھیلانے سے منع فرمایا ہے۔ قرآن کریم کی تعلیم بہت جامع ہے اسی لئے فرمایا:’’ زمین میں فساد برپا نہ کرو۔جب کہ اس کی اصلاح ہوچکی ہے اسی میں تمہاری بھلائی ہے‘‘۔(۳)۔ زمین میں فساد پھیلانے سے مراد اس کے قدرتی حسن کو خراب اور تباہ کرنا ہے، فطری تناسب کو بگاڑنا اور سامان حیات اور زیست کو خطرنات سے دوچارکرنا ہے۔بقائے حیات کے لئے اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ پاکیزہ ماحول کو فطری انداز میں قائم رکھنا بہت ضروری ہے۔حضور ﷺ نے تحفظ ماحولیات کیلئے بہترین رہنمائی فرمائی ہے ۔’’ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا ،اے اللہ کے نبی ﷺ مجھے کسی ایسی بات کی تعلیم عطا فرمائیے جس سے مجھے فائدہ ہو۔ آپ ﷺ نے فرمایا مسلمانوں کے راستے سے تکلیف دینے والی چیزوں کو ہٹا دیا کرو‘‘۔
اس سب سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے کہ وہ بری، بحری اور فضائی راستوں کو ضرر رساں اور باعث اذیت اشیاء سے پاک کرنا ہے۔’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا رسول اللہ ﷺنے فرمایاجو مسلمان درخت لگائے یا کاشتکاری کرے اس میں سے پرندے، انسان یا چوپائے کھائیں تو لگانے والے کیلئے صدقہ کا ثواب ہے‘‘،علاوہ ازایں بھی بہت ساری احادیث مبارکہ میں شجر کاری کی فضیلت اور صریح ہدایات موجود ہیں۔اس عالم کا زکر اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اسطرح فرمایا ہے: والارض بعد ذالک دحاھا، اخرج منہا ماء ہا ومزعیہا۔ والجبال ارسیہا۔متاعا لکم ولانعامکم ۔(۴)؛ اسکے بعد زمین کو اس نے بچھایا اس کے اندر سے اس کا پانی اور چارہ نکالا اور پہاڑ اس میں گاڑ دیئے سامان زیست کے طور پر تمہارے لئے اور تمہارے جانوروں کیلئے۔
دین متین اسلام میں انسانیت کی فلاح بہبود اور اس سے متعلق تمام امور کو کار خیر قرار دیا ہے۔دین اسلام ایک فطرت پر مبنی ہے جس نے عوام الناس کے وجدان اور شعور حیات میںانقلاب برپا کرتے ہوئے نہ صرف اس دور کے مسائل بلکہ آنے والے تمام زمانوں کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے راہ ہموار فرمادی۔یہی وجہ ہے کہ خلفائے راشدین اور ان کے مابعد بنو امیہ ،بنو عباس کے ادوار میں بلکہ مسلمان جہاں بھی فاتح بن کر گئے انہوں نے وہاں کے قدرتی وسائل کو تحفظ دیا اور بلا لحاظ مذہب و ملت عوامی فلاح و بہبود کیلئے استعمال کیا۔زرعی اصلاحات ، سیلابی پانی کی روک تھام ،بنجر اور بے آباد زمینوں کی کاشتکاری و شجرکاری سے علاقوں کو سر سبزو شاداب بنایا گیا،حوض نہروں کی کھدائی ،پلوں اور سڑکوں کی تعمیر سے عوامی ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ خطہ ارضی کو سنوارہ گیا۔مسلمان جب سپین گئے تو وہاں بھی زراعت کے جدید طریقوں کو اپناتے ہوئے دوسرے پھلوں و اشجار کے علاوہ چاول، خوبانی،انار،کھجور،نارنگی،روئیاورزعفران کی کاشت سے علاقے کو متعارف کروایا۔اسے باغات،چشموں،جھرنوں، آبشاروں اور نہروں سے سجا کر لافانی عطیہ عطا کیا۔ بر صغیر ہند و پاک میں مسلم دور کی یادگار باغات آج بھی موجود ہیں جو تحفظ ماحولیات کے سلسلے میں ان کے کار خیر پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہیں۔
کلام اللہ کائنات اور اس کے جملہ رموز پر غور وفکر کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ عربوں نے جب قرآن مجید فرقان حمید کو اپنا اوڑنا بچھونا بنایا تو کرہ ارض اور اجرام فلکی کی ماہیت کو جاننے کیلئے مختلف اقدامات اٹھائے۔مامون الرشد کے عہد مین کرہ ارض کے محیط کی تحقیق کیلئے متعدد تجربات کئے اور علم ہیت میں حیرت انگیز ترقی کیلئے ثماسمیہ کے مقم پر دنیائے اسلام کی پہلی رصدگاہ قائم کی گئی جس کے زریعے سورج، چاند،سیاروں اور دیگر کوکب کے حالات معلوم کئے جاتے ۔مسلم ہیت دانوں کی جانفشانی کی بدولت آسمان پر دریافت ہونے والے ستاون ستاروں کے نام عربی میں ہیں۔مثلا Achmar(آخرالنہر)Aldairan(الدائران) Alphad(الفرڈ)Minkar(منقار) اور Suhailسہیل وغیرہ اس طرح ہمارے تحفظ ماحولیات کے حوالے سے ہمارے آباو اجداد کی کاوشیں بہت مثبت اور حوصلہ مند رہی ہیں۔
اللہ جلیٰ شانہ نے قرآن پاک میں جا بجا اور سورہ الرحمٰن میںخاص طور پر انسان کیلئے کرہ ارض ، کرہ آب اور کرہ باد میں مہیا کردہ نوازشات اور نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے۔ اگر آج کی دنیا پر نظر دوڑائیں تو سائنسی تحقیق نے جس طرح بے شمار وسائل انسانوں کیلئے زمین پر بکھیردیئے ہیں اسی طرح زیر زمین بھی بیش بہا عناصر خام مال کی صورت میں جمع کر رکھے ہیں۔یہ جو بہت کارآمد ہیں صدیوں کے عمل سے صدیوں پہلے تخلیق ہوئے۔بالخصوص گزشتہ ڈیڑھ صدی سے صنت و حرفت میں جدید ترقی کے خواہاں انسان نے ان عناصر کو بے دریغ استعمال کرنا شروع کیا ،قدرت کے عطا کردہ توانائی کے زرائع استعمال کرنا شروع کیا ۔قدرت کے عطا کردہ توانائی کے زرائع کوئلہ،تیل، گیس اور لکڑی ہیں جو آج مشرق و مغرب میں بہت برق رفتاری سے خرچ ہو رہے ہیں، ان زخائر کو ایک ہی بار استعمال میں لایا جاتا ہے اور خاتمے کے بعد انہیں دوبارہ حاصل کرنا ناممکن ہے۔مثلا دنیا میں ہزار ہا میلوں پر پھیلے جنگلات بہت تیزی سے کاغذ میں تبدیل ہو رہے ہیں مگر جدید سانئسی دور نے ابھی تک کوئی طریقہ ایسا ایجاد نہیں کیا جس سے کاغذ کو واپس جنگلات میں تبدیل کیا جا سکے!ایک طرف تو خام وسائل کی مقدار لمحہ بہ لمحہ ختم ہو رہے ہیں دوسری طرف ان کے استعمال کے غلط طریقوں سے ایسے باقیات جنم لے رہے ہیں جس سے اس کرئہ ارض کا چہرہ مسخ ہورہا ہے۔اگر سوچا جائے تو انسان کا وجود جن عناصر سے اللہ نے تخلیق کیا ہے ان کی روئے زمین سے نہ مٹنے والا ایسا مواد جمع ہورہا ہے جو ایک بہت بڑا چیلینج ہے آج کے اس جدید دور میں۔
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب موت ہے ان ہی اجزا کا پریشاں ہونا قرآن مجید یہ بتاتا ہے کہ مادہ اور توانائی ابتداء ایک ہی چیز تھے ،مادہ سمٹی ہوئی توانائی ہے اور توانائی مادے کی آزاد شدہ شکل،اسی طڑح زمان و مکان (Time & Space)کوبھی ایک دوسرے سے جہ کرنا ناممکن ہے۔دونوں ہمیشہ متصل اور مسلسل حالت میں پائے جاتے ہیں۔اللہ رب العزت نے اپنی ربوبیت کی طاقت اور دبائو کے عمل سے تمام اجرام سماوی کو ایک وحدت (Singularity)سے پھاڑ کر جدا جدا کر دیااور یوں تمام سماوی کائینات کو ایک وجود ملا ! یہ قرآنی راز آئن سٹائن کے نظریہ اجافت کے زریعے ۲۰ویں صدی کے اوائل میں منظر عام پر لایا۔جیسے قرآنی نظریہ اس طرح ہے ’’والسماء بنیناھا باید‘‘(۵)سورہ الذاریات : ۵۱:۴۷ کے تحت کائینات کو طاقت کے زریعے پیدا کئے جانے پر حاصل ہونے والا تصور قرآنی (Big Bang)عظیم ابتدائی دھماکے سے شروع ہونے والے تصور کا ظاہر کرتا ہے۔ ارضیات و ہیت کے ماہرین کے نذدیک آج کی دنیا میں ماحولیاتی آلودگی ایک اہم ترین چیلینج ہے۔یہ عمل ہوا، مٹی،پانی اور نباتات کی طبئی ، کیمیائی اور حیاتیاتی خصوصیات میں عدم توازن اور محض تبدیلیاںپیدا کرنے کا باعث ہوا ہے۔آج گلوبل وارمنگ Global Warming کے بڑتے ہوئے مضر اور منفی اثرات قدرت کے اجزائے ترکیبی میں خؒؒ ڈالنے کا باعث بن گیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ آبی، زمینی اور فضائی آلودگی کا کئی گنا اظافے کا باعث بن گیا ہے۔معاشی اوراقتصادی ترقی کی دوڑ میں صنعتی عمل، فیکٹریوں اور گاڑیوں سے خارج ہونے والے کیمیائی مرکبات اور زرات سورج کی روشنی سے ملکر ایسے مرکبات بناتے ہیں جسے سموگSmog) (کہتے ہیں گرمی حدت اور موسمی تبدیلی کے نتیجے میں دنیا بھر میں گلشرز پگل رہے ہیں ۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر گلشرز کے پگلنے کی رفتار اسی طرح رہی تو یہ چند سالوں میں ختم ہو جائیں گے ۔سورج کی تمازت بڑھ رہی ہے کرہ ارض پر اوزون کی تہہ میں سوراخ کی دریافت ہو چکی ہے ۔جنگلی و آبی حیات معدوم ہو رہی ہے۔ پودے ،درخت، اور فصلیں سورج کے گندے پانی سے سیراب ہورہے ہیں۔ پانی قدرت کے دیئے ہوئے اس تحفے کو بھی قابل استعمال نہیں رہنے دیا ، یہ گندہ پانی ندی نالوں اور دریائوں میں بہا دیا جاتا ہے۔فیکٹریوں اور دیگر صنعتوں کی پیداوی عمل سے خارج ہونے والے آبی اور ٹھوس فضلات کو دریائوں اور آبی زخائر کے وسائل میں شامل کر دیا جاتا ہے جو سمند ر تک آبی حیاتیاتی عمل کو شدید نقصان پہنچا رہا ہے۔اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صرف دریائے راوی میں روزانہ تقریبا ۲۱۲ ملین گیلن گندہ پانی شامل ہو رہا ہے۔دوسرے یورپ اورامریکہ صنعتی شہروں میں کیا حال ہے جہاں ناگفتہ بہ حالت ہے۔
ترقی کے بڑھتے ہوئے معیار کو قائم رکھنے ، کم محنت کرکے سہل، پرلطف اور پر آسائش زندگی گذارنے کی خواہش ،سرمایا دارانہ نظام کے ظلم اور صنعتکاروں کے حریفانہ اقدام نے ماحولیاتی آلودگی کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ ایک طرف تو نسل انسانی تباہی کے دھانے پر آن کھڑی ہوئی ہے اور دوسری طرف حیات زندگی کے آثار معدوم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ آج کا دور ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ خوبصورت عرضی و سماوی نعمتوں کو اپنی حریفانہ کاوشوں سے آلودہ کر دیا ہے اور اس خوبصورت رنگ و بو کی بزم کو شہر خاموشاں میں تبدیل کردیا ہے۔
ماحولیات کا تحفظ اور قدرتی نظام توازن کو بحال کرنا آج کے انسان کا سب سے بڑا پیش خیمہ اور چیلینج ہے۔ حیوانات، آبی حیات، نباتات و اشجار ابتدائے آفرینش سے انسان کے ساتھی ہیں۔ ان کی حفاظت کا احتمام کرنا انسان کی زمہ داری ہے۔ان حالات میں اگر ہم اسلامی اسولوں اور ضابطہ حیات کو اپنائیں تو ماحولیاتی آلودگی کے بہت سے مثائل نبرد آزما ہو سکتے ہیں ۔ اسلام ایک دین فطرت ہے اور ہمیں سادہ زندگی گذارنے کی ترغیب دیتا ہے زاتی طہارت کے ساتھ ساتھ گردو پیش کے ماحول کو ترغیب دیتا ہے۔زاتی طہارت کے ساتھ ساتھ گردو پیش کے ماحول کو پاک و صاف رکھنے کا اجر و ثواب ہے اسلامی تعلیمات مین بقائے حیات و فلاح انسانیت کو پیش نظر رکھا گیا ہے ۔اسلام تہذیب و معاشرت میں دلنوازی ، حسن و سلیقہ، اور نظم و ضبط قائم کرنے کا درس دیتا ہے۔جانوروں سے پیار، اشجار سے انسیت و حفاظت کا اہتمام اسلام ہی نے سکھایا ہے ۔ یہاں تک کے دشمن کے علاقے میں بھی ان کی حفاظت کا حکم ہے ۔شجرکاری صدقہ جاریہ ہے اگر صرف اسی پر عمل کرلیا جائے تو ہم اپنے ارد گرد کے ماحول کو آلودگی سے بچا سکتے ہیں۔۔۔
ماخذ:(۱)القرآن سورہ لقمان،(۳۱:۲۰)۔(۲)القرآن سورہ یٰسین،(۳۶: ۳۳تا۴۰)۔(۳ )القرآن، سورہ:الاعراف( ۶۵؛۳۲)۔(۴) القرآن النزعت،۷۹:۳۳تا ۴۳)(۵) القرآن الذاریات؛۵۱:۴۷)
٭٭٭