جعفر حسین ماپکر
8668556701
ہر انسان نے بالاخر مرنا ہے، مرتے ساتھ ہی اس نے اپنی زندگی میںدنیا کا جو مال کمایا یا جمع کیا تھا اُس پر، اس کے وارث قابض ہوجائیں گے. بحیثیت مسلمان اللہ تعالیٰنے ہمیں دنیا میں زندگی گزارنے کی پوری پوری رہنمائی اور گائیڈنس دی ہے. یہاں تک کہ مرنے والا مر جاتا ہے تو پیچھے رہ جانے والے وارثؤں کو بھی اللہ تعالیٰ نے اُس مال میراث کو تقسیم کرنے کی پوری پوری، گائیڈنس دی ہے. تقسیم میراثکا قانون، قرآن میں بیان ہوا ہے. لیکن بدقسمتی سے بہت کم لوگ میراث شریعت کے مطابق مرحوم کے ترکہ کی تقسیم کرتے ہیں، اور اکثر دیکھا گیا ہے کہ لوگ اپنے ماں بہنوں، اور بیٹیوں کو وراثت کے ترکہ سے بے دخل کرتے ہیں، اور ان کو اس کا احساس تک نہیں ہوتا. ان کے نزدیک جواز یہ ہوتا ہے کہ ہم نے بہن، بیٹیوں کو پڑھایا، لکھایا، اُن کی شادیاں کیں . لہٰذا اب ان کا وراثت کے مال پر حق نہیں بنتا. مجھے یہاں افسوس کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ کئی ماں باپ اپنی بیٹیوں کو تلقین کرتے ہیں کہ تمہاری معاشی حالت اب بہتر ہے، اس لئے تم نے ہمارے بعد اپنے بھائیوں سے حصہ نہیں مانگنا، اپنا حصہ معاف کردینا. کاش انہیں احساس ہوتا کہ، اس طرح کی سودے بازی، وصیت، یا تلقین کو قانون شریعت نہیں مانتا اور جو بھی اس طرح کا دباؤ اپنی بہن، بیٹیوں پر ڈالیگا، وہ بے انصافی کریگا، گناہ گار ہوگا. اللہ تعالیٰ کو انشاء اللہ جوابدہ ہوگا.
اسلام سے پہلے کے زمانے میں عرب میں ورثہ صرف مردوں میں تقسیم ہوتا تھا۔ اسلام ہر وارث کا حصّہ مقرر کرتا ہے اور وراثت کی بنیاد قریبی رشتہ داری قرار دیتا ہے، نہ کہ ضرورت مند کی ضرورت کو ۔ قریبی رشتہ داری سے مراد خون کا رشتہ یا نکاح کا رشتہ ہے۔سُنی عقیدے کے مطابق قرانی احکامات پرانے عرب دستور کو ردّ نہیں کرتے، بلکہ انہیں صرف بہتر بناتے ہیں تاکہ عورتوں کو بھی وراثت میں شامل کیا جائے۔
میراث کو تقسیم کرنے کا ایک خاصطریقہ ہوتا ہے جسے سمجھنا ہر کس و ناکس کی بات نہیں. ورثہ تقسیم کرنے سے پہلے، مندرجہ ذیل حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے، مرحوم/مرحومہ کی وراثت کوحقداروں میں تقسیم کیا جائے.
١: کفن دفن کے اخراجات نکال لیے جائیں۔
٢: سارے قرضے اتار دیے جائیں جس میں اُدھار، بیوی کی مہر، زکوۃ اور چھوڑے ہوئے روزوں کا کفارہ شامل ہے۔
٣: ہبہ۔ کوئی بھی چیز کسی کو بھی دینے کی آزادی۔ زندگی میں دی گئی چیز واپس نہیں لی جا سکتی۔
٤: وصیت۔ یہ زبانی بھی ہو سکتی ہے اور تحریری بھی- یہ ورثے کی کل مقدار کا ایک تہائی تک ہو سکتی ہے۔ یہ مرنے کے بعد ہی دی جاتی ہے اور وارثوں کو نہیں مل سکتی۔
بالفرض اگر کسی کے والد صاحب حیات ہیں تو وہ اپنی حیات میں اپنی جائیداد و اموال کے خود مالک ہیں، ان کی زندگی میں اولاد کو ان سے مطالبے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔اور اگر والد صاحب اپنی زندگی میں اپنی اولاد کے درمیان اپنی جائیداد و اموال تقسیم کرناچاہتے ہیں تو یہ تقسیم وراثت نہیں، بلکہ ہدیہ (گفٹ)کہلائے گی۔اور زندگی میں اولاد کے درمیان جائیداد کی تقسیم کے بارے میں شرعی حکم یہ ہے کہ تمام اولاد کو برابر، برابر حصے دئیے جائیں ، اور جتنا حصہ بیٹے کودیں اتناہی حصہ بیٹی کو بھی دیاجائے، بغیر کسی شرعی بنیاد کے کسی کو کم اور کسی کو زیادہ دینا درست نہیں ہے.
اور اگر والد صاحب حیات نہیں ہیں، تو ان کا ترکہ ان کی بیوہ، بیٹوں اور بہنوں میں تقسیم ہوگا. اگر گھر سب بہن بھائیوں میں مشترک ہیں تو اس کی رقم آنکی جائے گی اور وہ رقم سارے بہن بھائیوں میں تقسیم ہوگی. ہے، صرف بھائیوں کا اس رقم کو لے لینا درست نہیں،بلکہ اس رقم میں شرعی حساب سے 2،2 حصے ہر ایک بھائی کے اور ایک حصہ بہن کا ہے۔ لہذا شریعت کے مطابق وراثت تقسیم ہونی چاہیے۔ نیز والد صاحب کے جتنے بھی متروکہ مکانات ہیں وہ تمام مکانات بھی تمام ورثاء میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کیے جائیں گے.
اگر مورث کو اپنی زندگی میں یہ محسوس ہو کہ میرے ورثاء میراث کے سلسلے میں نزاع کریں گے، ڈنڈی مارینگے یا بعض بیٹے، ان کی بہن بیٹیوں کا حصہ غصب کرلیں گے تو مورث کے لیے بہتر ہے کہ اپنی زندگی ہی میں، اپنی جائداد کی تقسیم کردے اور ہر ایک وارث کو اس کے حصے پر قابض ومتصرف بنادے۔ یا ورثاء کو تاکیدی وصیت کرکے جائے کہ میراث شریعت کے مطابق تقسیم کریں، بہتر ہے کہ ”وصیت نامے“ کو رجسٹرڈ کرادے.
بہتر یہ ہے کہ جس موضوع پر جسے بھی دسترس حاصل ہو، سوال و جواب اسی سے پوچھنا چاہیئے. اس لئے وراثت کی تقسیم کے حوالے سے صحیح، مولانا، مفتی یا وکیل کو چُن کر متوفی کا ترکہ تقسیم کیجئیے، ورنہ غیر شرعی وراثت کا وبال ان پر ہوگا جنہوں نے اس کی غیر شرعی تقسیم کی ہوگی. واللہ اعلم بالصواب
حعفر حسین ماپکر