اسقاط حمل کی عالمی صورت حال

0
0

 

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

مرکزی وزارت صحت اور خاندانی فلاح کی رپورٹ کے مطابق 1972سے2022تک ہندوستان میں اسقاط حمل کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے1972میں صرف 24300خواتین نے اسقاط کرایا تھا، جب کہ 1980میں 384405، 1985میں 538704، 1990میں 581215،1995میں 618373، 2000میں725149،2005میں 721859، 2010میں 657191، 2015میں 721055اور 2022میں 1144634اسقاط حمل کے معاملات سامنے آئے، جو معاملات روپے دے کراسپتالوں میں دبا دیے گیے، اس کے اعداد وشمار تک اس رپورٹ میں رسائی نہیں ہو سکی ہے۔
عالمی صحت تنظیم نے سب سے زیادہ اسقاط حمل کرانے والے دس ممالک میں روس(53.7) قزاقستان(35.0) ایسٹونیا(33.3) بیلا روس (31.7)رومانیہ(27.8)یوکرین(27.5)لاتویا(27.3)کیوبا(24.8) چین(24.0)کا ذکر کیا ہے، اس سروے میں ہر سال ایک ہزار عورتوں سے پوچھ تاچھ کیا گیا تھا، دنیا میں ہر سال7.33کروڑ اسقاط حمل کے واقعات ہوتے ہیں۔ ساٹھ فی صد ملکوں میں قانونی طور پر اس کی اجازت نہیں ہے، اٹھائیس فی صد ملکوں میں اسقاط قانونی عمل ہے۔ 36فی صدی ممالک میں اسقاط کے لیے عدالت جا کر قانونی تقاضے پورے کرنے ہوتے ہیں۔ ہندوستان ان میں سے ایک ہے، یہاں ایم ٹی پی قانون کے تحت اسقاط کرایا جا سکتاہے۔2017میں نو ججوں کی ایک بینچ نے حمل اور اسقاط حمل کے حق کو دستور کی دفعہ 21اور 19کے تحت زندگی کی ازادی سے جوڑا تھا، لیکن ائی پی سی (IPC)کی دفعہ 312اور313میں اسقاط حمل اور جنین کے قتل کو جرم قرار دیا گیا ہے، اس لیے میڈیکل ٹرینیشن اف پرگنیسی ایکٹ(MTP)کے تحت ہی اسقاط کرانا ممکن ہے، اس قانون کا بے جا استعمال حمل میں لڑکیوں کا پتہ لگا کر نہیں کیا جا سکتا ہے، اسی لیے الٹراساونڈ وغیرہ کے ذریعہ حمل میں جنین کی جانچ بھی غیر قانونی ہے، یہ الگ بات ہے کہ جانچ کرانے والا مٹھی گرم کرنے پر یہ غیر قانونی کام بھی کر گزر تا ہے، شانتی لال شاہ کمیٹی کی رپورٹ کے بعد 1971میں ایم ٹی پی قانون بنایااور 2003میں اس کے ضابطے کو اخری شکل دی گئی تھی2021میں اس میں ترمیم کی گئی اور نئے ضابطے نافذ کیے گیے۔
اس نئے ضابطہ اور قانون کے مطابق عصمت دری کی متاثرہ اور بیوہ یا نا بالغ لڑکیاں جو حاملہ ہو گئی ہوں دو ڈاکٹروں کی صلاح کے بعد 20سے 24ہفتے تک اسقاط کراسکتی ہیں، 24ہفتہ کے بعد اگر کوئی خاتون اسقاط کرانا چاہتی ہے تو اسے دفعہ 226کے تحت ہائی کورٹ اور دفعہ 32کے تحت سپریم کورٹ میں عرضی داخل کرنی ہوگی اور میڈیکل بورڈ کی صلاح کے بعد اسقاط کی اجازت عدالت دے سکتی ہے، جیسا کہ ابھی حال میں 27ہفتہ کے حاملہ کو ابروریزی کی وجہ سے سپریم کورٹ نے اسقاط کی اجازت دی تھی اور کہا تھا کہ ا?برو ریزی ایک تکلیف دہ عمل ہے اور اس تکلیف دہ عمل کے نتیجہ میں حاملہ ہونا پرانے زخموں کی یاد دلاتا رہتا ہے، اس لیے متاثرہ کو اس کرب سے نکالنا ضروری ہے۔
جن پانچ ممالک میں اسقاط حمل کاتناسب کم ہے، ان میں پر تگال(0.2)میکسیکو(0.3)قطر(1.2)ا?سٹریا(1.3) اور ہندوستان (3.1)شامل ہے اور ہندوستان ان ممالک میں سر فہرست ہے۔
ہندوستان کی جن ریاستوں میں زیادہ اسقاط حمل کیا جاتا ہے، ان کے 2021اور 2022کے اعداد وشمار کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ایک لاکھ خواتین میں ہر سال 11لاکھ44ہزار اسقاط کرائے گیے ان کاتناسب مغربی بنگال میں 1.08، مہاراشٹر میں 1.8اور تامل ناڈو1.14واقعات پیش ائے، اسقاط کا 67%طریقہ غیر محفوظ رہا اور روزانہ اس کام کی وجہ سے کم از کم ا?ٹھ عورتوں کی جان جاتی رہی ہے۔ ہندوستان میں ماوں کے مرنے کی یہ تیسری سب سے بڑی وجہ ہے۔ یونائیٹڈنیشن پوپلسن فنڈ کی مانیں تو اس غیر محفوظ عمل کی وجہ سے ہر سال تین ہزار عورتوں کی جان چلی جاتی ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ ہندوستان میں اسقاط حمل کو روکنے کے لیے مناسب تدبریں کی جائیں تاکہ ماوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا