اسرائیل کا فلسطین پرمسلسل بمباری اور مسلم ممالک

0
0

 

 

 

 

ڈاکٹر سید احمد قادری

 

8969648799

اسرائیل نے مغربی ممالک کے اپنے حلیف امریکہ ، برطانیہ ، فرانس ، اٹلی ، جرمنی اور کناڈا وغیرہ کی فوجی مدد سے فلسطین کے مختلف علاقوں پر مسلسل بمباری کرتے ہوئے حیوانیت کی ساری حدیں پار کردی ہیں ۔ غزہ کے ہسپتالوں ، اسکولوں ، مساجد ، چرچ،پناہ گزیں کیمپوں اور دیگر شہری علاقوں میں غیر انسانی اوربین الاقوامی سفارتی وجنگی قوانین اور ضوابط کو درکنار کرتے ہوئے جس درندگی کا مظاہرہ اسرائیل کر رہاہے ، اس حیوانیت سے اب تک سات ہزار سے زیادہ فلسطینیوںکا قتل عام کیا جا چکا ہے اور بقول ملکۂ اردن، رانیا ’ ماڈرن ہسٹری میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ایک جانب نسل کشی ہو رہی ہے اور دنیا سیز فائر کا مطالبہ نہیں کر رہی ہے ۔‘ انتہا تو یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیوں گوئٹرس نے پچھلے دنوں سلامتی کونسل کی سہ ماہی اجلاس میں جب انسانی بنیادوں پر فوری طور پر جنگ بندی کی بات کی ،تو اسرائیل تلملا اٹھا اور ا س نے سکریٹری جنرل سے ہی استعفیٰ کا مطالبہ کر دیا اور تو اور اسرائیلی وزیر خارجہ نے ان سے ملاقات کرنے سے بھی انکار کر دیا ۔
تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ اس وقت جب یہودیوں کو دنیا کا کوئی بھی ملک پناہ دینے کو تیار نہیں تھا ۔ اس وقت فلسطین نے اسرائیل کو پناہ دی ۔ لیکن اسرائیل نے فلسطین کی صلہ رحمی کے جواب میں مسلسل فلسطینیوں پر ظلم ،تشدد،بربریت ، دہشت ، سفّاکیت اور قتل و خون کا مظاہرہ کرتے ہوئے دئے گئے رقبہ میں بزور طاقت اضافہ کرتا رہا اور ہر امن معاہدے کو مسترد کرتا رہا ۔ ایسے میں تنگ آمد بجنگ آمد پر عمل کرتے ہوئے 7 ؍ اکتوبر 2023 ء کو حماس نے بڑی خاموشی لیکن منصوبہ بند اور منظم طور پر موساد جیسی دنیاکے اعلیٰ ترین انٹیلی جنس محکمہ جسے اپنی سراغ رسانی پر بڑا غرور تھا ، اس کے غرور کو توڑتے ہوئے ’ آپریشن طوفان الاقصیٰ‘ کے تحت اسرائیل پر اچانک بڑا حملہ بولا۔ اس حملے سے موساد اور صہیونی وزیر اعظم نتین یاہو بھی حیرت زدہ تھے کہ یہ اچانک فلسطین کے جنگجوؤ میں اتنی ہمّت ، جرأت اور قوت کہاں سے آ گئی کہ اس نے اتنا بڑا حملہ کرتے ہوئے سینکڑوں اسرائیلی فوجیوں کو ہلاک اور کئی فوجیوں اور شہریوں کو یرغمال بنالیا ۔ اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت اور یرغمال بنائے جانے سے اسرائیلی سیاست میں ایک بھونچال ساآ گیا اور حزب مخالف اور وہاں کے عام شہری اسرائیلی حکومت کی اس ناکامی پر برہم ہوتے ہوئے وزیر اعظم نیتن یاہو سے استعفیٰ تک کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ نیتن یاہو جو ابھی حال ہی میں بڑی مشکلوں سے برسر اقتدار آئے ہیں ، وہ اپنی حکمرانی کو برقرار رکھنے کے لئے بے چین اور بے قرار ہیں ۔ اسی پریشانی میں اپنے اقتدار کو بچانے کے لئے نیتن یاہو نے مغربی ممالک کی مدد سے غزہ میں مسلسل بمباری کرتے ہوئے پورے شہر میں معصوم اور بے گناہ انسانوں کی لاشوں کے ڈھیر لگا دئے ہیں ۔ لاشوں کا یہ عالم ہے کہ انھیں دفنانے کے لئے کوئی جگہ نہیں بچی ہے ،نتیجہ میں ان لاشوں اور لاشوں کی باقیات کو اب اجتمائی قبر میں دفن کیا جا رہا ہے ۔اسرائیل کی اس حیوانیت اور سنگ دلی پر دنیا کے کئی ممالک میں احتجا ج اور مظاہرے ہو رہے ہیں ۔ خاص بات یہ ہے کہ اسرائیل کے خلاف غم و غصہ کا اظہار کرنے والوں میں دیگر مذاہب کے لوگوں کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں ایسے یہودی بھی شامل ہیں جو انسانیت اور انسانی اقدار پر یقین رکھتے ہیں ۔ امریکہ جہاں اسرائیل کے بعد تقریباََ 16 لاکھ یہودی بستے ہیں ، امریکی کانگریس کے باہر یہودیوں نے اسرائیل کے وحشیانہ اور جارحانہ حملوں کی سخت مذمت کرتے ہوئے مظاہرہ کیا ۔ اس احتجاج میں پانچ سؤ سے زائد یہودیوں کو گرفتار بھی کیا گیا ۔ امریکہ کے شہر نیو یارک کے سب سے اہم علاقہ مین ہیٹن میں بھی احتجاج دیکھا گیا ۔ مین ہیٹن کے ایک یہودی عبادت گاہ کے ربی آرٹھر شنایئر نے بھی اسرائیل کے مسلسل بمباری پر اپنی ناراضگی ظاہر کی ہے ۔ سابق اسرائیلی وزیر اعظم ایہود براک کے مشیر ڈئیل لیوی نے بی بی سی سے نشر ہونے والے اپنے ایک انٹرویو میں ا فسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ اسرائیل غزہ میں اپنے انسانیت سوز مظالم پر پردہ ڈالنے اور انھیں جائز قرار دینے کے لئے منظم طریقے سے جھوٹ اور فریب کا سہارہ لے کر پروپیگنڈہ مہم چلا رہاہے‘ ۔ اسرائیل کے ذریعہ مسلسل فلسطینیوں کے قتل عام کے خلاف احتجاج و مظاہرہ کی تپش امریکہ کے ساتھ ساتھ برطانیہ ، کناڈا ، اسپین ، آسٹریلیا ، اردن سمیت دنیا کے کئی ممالک تک پہنچ گئی ہے ۔ ایسے احتجاج اور مظاہروں میں یہودیوں نے ’یروشلم کو آزاد کرو‘کے پلے کارڈ اٹھا رکھے نظر آ رہے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ موجودہ اسرائیلی حکومت یہودیوں کی نہیں بلکہ صہیونیوں کی نمائندگی کر رہی ہے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حمّاس نے اتنا منظم اور منصوبہ بند حملہ کیوں کیا ؟ دراصل ادھر امریکہ کی ثالثی میں سعودی عرب سے اسرائیل کی قربت بڑھتی جا رہی تھی ۔ متحدہ عرب امارات ، بحرین اور دیگر عرب ممالک نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کر لیا تھا اور وہ دن بہت قریب تھا کہ اسرائیل اور سعودی عرب سے سفارتی تعلقات استوار ہو جاتے اور بہت جلد کسی معاہدے پر بھی دستخط ہوجاتے ۔ امریکہ کی کوششوں سے قائم ہونے والی یہ دوستی کسی بھی حال میں فلسطین کے حق میں نہیں تھی ۔ یا دکیجئے سال رواں کے ستمبر ماہ کے اواخر میں اسرائیلی وزیر خارجہ ایلی کوہن کا وہ بیان ، جس میں اس نے کہا تھا کہ ’ سعودی عرب سے تعلقات استوار ہوتے ہی سات مسلم ممالک ہمیں تسلیم کر لیں گے‘۔ ایلی کوہن نے ان ممالک کا نام تو نہیں بتایا لیکن افریقہ اور ایشیا ٔ کے کئی ممالک کی جانب واضح اشارہ تھا ۔ دراصل امریکہ اپنے روایتی حلیف سعودی عرب پر اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لاکر ایک اہم معاہدے پر دستخط کرنے کے لئے بھی دباؤ ڈال رہا ہے جو کہ ا س خطّے میں اس کی سب سے بڑی سفارتی فتح ہوتی ۔ اس سے قبل متحدہ عرب امارات ، بحرین اور مراقش کے ساتھ اس طرح کے معاہدے ہو چکے ہیں جو ’ ابراہیم ایکارڈ ‘ کے نام سے موسوم ہے ۔ ایسے تمام معاہدے فلسطین کے مفادات کے خلاف ہیں ۔ فلسطین ایسے معاہدوں پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہہ چکا ہے کہ ایسے معاہدے فلسطین اور اسرائیل کے بغیر،مشرق وسطیٰ میں امن ممکن نہیں ہے ۔ فلسطین نے معاہدے کے لئے جو چند مطالبات پیش کئے تھے ۔ وہ یہ تھے کہ مغربی کنارے کے کچھ حصوں کو جو اس وقت مکمل اسرائیلی کنٹرول میں ہیں( 1990 ء کے اوسلو امن کے معاہدے کے تحت جنھیں ایریا ’سی‘ کے نام سے جانا جاتا ہے ) کو فلسطینی اتھارٹی کی حکمرانی والے علاقوں میں منتقل کیا جائے ، مغربی کنارے میں اسرائیلی آبادکاری کی ’مکمل بندش ‘ کی جائے ، تقریباََ 200 ملین ڈالر سالانہ فلسطینی حکام کو سعودی عرب مالی امداد دوبارہ شروع کرے جو 2016 ء سے سست ہوتے ہوئے تین سال قبل مکمل طور پر بند ہو گئی ہے ، مقبوضہ مشرقی بیت المقدس میں امریکی قونصل خانے کو دوبارہ کھولا جائے جو فلسطینیوں کے لئے سفارتی مشن تھا جسے سابق صدر رونالڈ ترمپ نے بند کر دیا تھا ، اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امریکہ کی ثالثی میں مزاکرات دوبارہ شروع کئے جائیں جہاں سے وہ 2014 ء میں اس وقت کے وزیر خارجہ جان کیری کی قیادت میں رک گئے تھے ۔فلسطین کے یہ مطالبات بلا شبہ حق و انصاف پر مبنی ہیں ، جن پر توجہ دینے کی ضروت تھی ، لیکن توجہ تو دور امریکہ بڑی تیزی سے فلسطین کے مسائل اور مطالبات کو درکنار کر تے ہوئے وہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات کو استوار کر اپنے اور اسرئیل کے مفادات کو پورا کرنا چاہ رہا تھا ۔ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان گرچہ امریکہ کے آگے سر نگوں نظر آتے ہیں لیکن انھیں اپنے ملک کے عوام کا، مظلوم فلسطین کے لئے جو جذبات ہیں انھیں نظر انداز کرنا مشکل ہے ۔ یہی وجہ رہی کہ امریکہ کی ثالثی کے درمیان سعودی ولی عہد نے یہ واضح کر دیا ہے کہ ’ اسرائیل کے ساتھ کسی بھی نارملائزیشن معاہدے کے لئے فلسطینی مسائل کا حل ضروری ہے ‘ ۔ ولی عہد کی اس وضاحت کے بعد امریکی اور اسرائیلی حکمرانوں کی سعودی عرب کے دورے میں کافی تیزی دیکھی جا رہی ہے ۔ مغربی ممالک کے فوجی امداد سے اسرائیل کے مسلسل فلسطین پر بمباری اور ہلاکتوں کو دیکھتے ہوئے ملشیا کے وزیر اعظم نے بڑی اچھی بات کہی ہے کہ’ اگر فلسطین کے معاملے پر سعودی عرب قیادت کرے تو اس کے زبردست اچرات مرتب ہو سکتے ہیں ‘۔
اس پورے تناظر میں اب یہ دیکھنا ضروری ہے کہ یہودی جو یوروپ میں ہو رہے مسلسل مظالم خاص طور پر دوسری عالمی جنگ میں نازیوں کے ہولوکاسٹ سے جان بچا کر فلسطین کی پناہ میں آئے ۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد 15 ؍مئی 1948ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک قرار داد پاس کر کے فلسطین میں یہودیوں کے لئے ایک ملک اسرائیل کے قیام کی منظوری دی تھی ۔ اسرائیل نے اس فیصلے کے بعد عالمی شہرت یافتہ سائنس داں البرٹ آنسٹائن کو ملک کا پہلا صدر بننے کی پیشکش کی ، لیکن آنسٹائن نے اس پیشکش کو یہ کہہ کرٹھکرا دیا تھاکہ’ وہ یہودی ضرور ہیں لیکن فلسطینیوں کے ساتھ نا انصافی سے بنائے گئے ملک اسرائیل کا صدر بننا انھیں منطور نہیں ہے ۔‘ اس پورے خطے میں اسرائیل کے وجود میں آتے ہی عرب ممالک کو اپنا وجود خطرے میں نظر آنے لگا اور ان کی مشترکہ افواج نے اسرائیل پر حملہ بھی کر دیا ۔ لیکن اسرائیل کو انگلینڈ اور دیگر کئی مغربی ممالک کی زبردست حمایت حاصل تھی اس لئے ان کے تربیت یافتہ اور جدید ترین جنگی اسلحہ سے لیس فوج نے عرب ممالک کو شکست دے دی ۔ اس شکست کے بعد عرب اور اسرائیل کے درمیان ہمیشہ دشمنی کی تلواریں کھنچی رہیں ۔ ادھر اسرائیل کی مغربی ممالک کی حوصلہ افزائی سے روز بروز ہمّت اور حوصلے بڑھتے رہے اور اس نے بزور طاقت فلسطین کے کئی اہم حصوں پر نہ صرف قبضہ کرنا جاری رکھا بلکہ فلسطینیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ بھی توڑتا رہا ۔ چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں ، نوجوان لڑکیوں کے ساتھ اسرائیلی فوجیوں کا جیسا حیوانیت بھرا سلوک دیکھا گیا ، اس سے انسانیت شرمسار ہوتی رہی ۔ ایسے مظالمانہ سلوک سے تنگ آکر عرب ممالک نے 1967 ء میں ایک بار پھر مشترکہ حملہ اسرائیل پر کیا ۔ لیکن اس بار بھی مغربی ممالک کا اسرائیل کو ہر طرح کا جنگی تعاون حاصل رہا اور ان کے اسی تعاون سے اسرائیل نے مصر ، سیریا ، اردن ، عراق اور لبنان کو شکست دینے میں کامیاب رہا ۔ اس کامیابی کے بعد ان علاقوں میں بھی اسرائیلیوں کی بستیاں قائم ہونا شروع ہو گئیں ۔ ایسی کئی بار کی شکست کے بعد عرب ممالک کی ہمّت ٹوٹ چکی تھی ، جس کے باعث عرب ممالک اسرائیل سے جنگ کی بجائے سفارتی تعلقات قائم کرنے لگے۔ 2002 ء میں شاہ عبداللہ کے دور میں سعودی عرب نے اسرائیل کو عرب ریاستوں کی جانب سے یہ پیش کش کی گئی تھی کہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان پائیدار امن ممکن ہے
اگر 1967ء کی چھہ روزہ جنگ میں اسرائیل نے فلسطین کی جو زمین ناجائز طور پر قبضہ کر رکھی ہے ،وہ واپس کر دے ، جن پر فلسطین ریاست قائم کی جائے ۔لیکن ’’عرب اقدام امن ‘‘ نام کی اس پیشکش کو امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی پشت پناہی کے باعث اسرائیل نے مسترد کر دیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ ، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک کی، اسرائیل کو یونہی پشت پناہی حاصل نہیں ہے ، بلکہ یہ تمام مغربی ممالک مل کرعرب ممالک، جو تیل کی دولت سے مالا مال ہیں ، ان پر تسلط کے خواہاں ہیں اور یہ منصوبہ عرب ممالک کے قریب میں قائم اسرائیل کی مدد سے آسانی سے ممکن ہے ۔ ان مغربی ممالک کی شہہ پر ہی اسرائیل پورے فلسطین پر اپنا قبضہ کرنا چاہ رہا ہے ۔ اسرائیل کا فلسطین کی سرزمین پر غاصبانہ قبضہ کا یہ عالم ہے کہ اسرائیل کو جو رقبہ 1948 ء میں اقوام متحدہ کی ایک قرارداد کے مطابق دیا گیا تھا، اس میں اب تک تین گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ جب اسرائیل کا قیام فلسطین میں عمل میں آیا تھا ، اس وقت بیت المقدس کو بین الاقوامی شہر قرار دیا گیا تھا ، اس لئے کہ یہ شہر اسلام ، عیسائی اور یہودی یعنی تینوں مذاہب کے ماننے والوں کے لئے مقدس ہے۔ لیکن اسرائیل اس پر بھی ناجائز قبضہ کرنے کی کوشش میں ہے اور ہر دن قبلہ اوّل مسجد اقصی ٰکی بے حرمتی کر کے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کر رہا ہے ، یہی نہیں آئے دن نمازیوں کے قتل وخون سے مسجد لہو لہان کی جارہی ہے ۔ رمضان المبارک کے مقدس ماہ میں بھی اسرائیل حیوانیت کی انتہا کرتے ہوئے اس مسجد کے عبادت گزاروں پر بربریت کا مظاہرہ کر چکا ہے ۔ مغربی ممالک کی پشت پناہی کا ہی یہ اسرائیلی جرأت ہے کہ اس نے اپنی راجدھانی تل ابیب سے بیت المقدس لانے بھی اعلان کردیا ہے ۔
خود مختار ریاست فلسطین پر جس طرح اسرائیل، مظالم ڈھا رہا ہے ، معصوم بچوں کو جس طرح زخموں سے چور خون سے لت پت دیکھا جا رہا ہے، ان کی لاشیں جس طرح بکھری پڑی ہیں ، ایسے اندوہناک مناظر کو دیکھنے کے بعد بلا شبہ غاصب اسرائیل عالمی سطح پر قاتلوں کی صف میں کھڑا نظر آرہا ہے اور دنیا کے بیشتر ممالک کی ہمدردی فلسطین کے ساتھ ہے ، لیکن امریکہ ،برطانیہ ، فرانس ، جرمنی ، اٹلی اور کنڈا وغیرہ جیسے مغربی ممالک جو انسانی حقوق کی ہمیشہ دہائی دیتے نہیں تھکتے ، ان کی نظروں کے سامنے انسانیت چیخ رہی ہے، بے گناہ انسانوں کی لاشوں کا انبار لگ رہا ہے، لیکن وہ اپنی آنکھوں پراپنے مفادات کا چشمہ چڑھائے ہوئے ہیں اور ایسے حالات میں ان کے سامنے اقوام متحدہ بھی بے بس نظر آ رہا ہے ۔ ٭٭٭

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا