خواجہ احمد حسین
مغربی بنگال کے موجودہ ادبی منظر نامہ پہ جس با وقار ادیب و شاعر کا چرچہ ہر خاص و عام کی زبان پہ ہوتا ہے جس کی شرکت سے محفلِ اردو ادب مہک و چہک اٹھتی ہے وہ کوئی اور نہیں بلکہ سرِ زمین بنگال کے نہایت ہی سنجیدہ و اعلیٰ تعلیم یافتہ، (کلکتہ یونیورسٹی کے گولڈ میڈلسٹ،) جواں سال ناظم ، معلم اور خوش گلو شاعر ارشاد آرزو ہیں ، برسوں پہلے معروف دانشور پروفیسر محمد سلیمان خورشید سابق جنرل سکریٹری مسلم انسٹیٹیوٹ کلکتہ نے اپنے ادارہ کے ایک جلسے میں کہا تھا کہ "ارشاد آرزو کی شاعری اپنی عمر سے دس سال آگے کی محسوس ہوتی ہے. اتنی پختگی اس عمر میں بہت کم شاعروں میں دیکھنے کو ملتی ہے. ” موجودہ جنرل سکریٹری مسلم انسٹیٹیوٹ نثار احمد سابق اسسٹنٹ کمشنر اف کلکتہ پولس نے صاف لفظوں میں مسلم انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام جشن اعزاز افضل منعقدہ تقریب میں کہا تھا کہ مجھے خوشی ہو رہی ہے کہ ھم اعزاز افضل ایوارڈ امسال ارشاد آرزو کو دے رہے ہیں ارشاد آرزو کا موجودہ شعر و ادب میں وہی رتبہ حاصل ہے اپنے زمانے میں جو وحشت کلکتوی، عباس علی خاں بیخود، سالک لکھنؤی، ابراھیم ہوش، وکیل اختر، اعزاز افضل اور منور رانا کو حاصل رہا، نثار بھائی کے اس جملے کی خاکسار خواجہ احمد حسین کے علاوہ سارے سامعین نے تالیاں بجا کر تائید کی تھی اور اب سنیئے ڈاکٹر مظفر حنفی صاحب نے اپنے عزیز شاگرد کے حوالے کیا کہا تھا ” طالب علمی کے زمانے میں ارشاد آرزو جس طرح کی شاعری کر رہے ہیں اس سے امکانات روشن دکھائی دیتے ہیں صرف اتنا ہی نہیں یونیورسٹی میں دوران کلاس طلباء و طالبات کے سامنے یہ بھی کہا کہ آپ مشاعرے کے لئے الگ سے شاعری نہ کریں بلکہ جس طرز کی شاعری کرتے ہیں وہی مشاعرے میں بھی پڑھیں اور رسائل و اخبارات میں شائع بھی کرائیں ۔اس طرح ان کی کہی ہوئی بات آج سچ ثابت ہوئی اپنے شاگرد کی مقبولیت دیکھکر عالم ارواح میں ان کی روح یقیںنآ خوش ہو رہی ہوگی۔ پروفیسر اعزاز افضل نے ارشاد آرزو کو پہلی بار مشاعرہ میں جب سنا تو برجستہ صدارتی خطبہ میں کہہ دیا کہ ” نوے کی دہائی میں ابھرنے والے شعراء میں مجھے ارشاد آرزو کی شاعری متاثر کرتی ہے،مستقبل میں ان سے بہت ساری امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں ” دیکھا آپ نے یہ بزرگوں کی دعاؤں کا ثمرہ ہی تو ہے خود کہہ ڈالا کہ۔۔
یہ میری زیست کا مطلع ہے یا غزل کا ہے
کہ آسمانِ سخن پر ابھر رہا ہوں میں
میرے بزرگ اور ارشاد کے استاد محترم حضرت قیصر شمیم صاحب نے ارشاد کے پہلے شعری مجموعہ” مطلع ” کی رسمِ رونمائی کے موقع پر اردو اکاڈمی میں فخریہ انداز میں کہا تھا کہ ارشاد آرزو غزل کا البیلا شاعر ہے ان کے اندر ایک فطری شاعری سانس لیتی ہے ۔ارشاد جب محمد جان ہائی اسکول کے طالب علم تھے تو اسکول کی سالانہ تقریب میں جب غزل پیش کی تو سارا مجمع جھوم اٹھا جیسا آج جھوم اٹھتا ہے تب اس وقت کے ھیڈ ماسٹر مرحوم اختر حسین صاحب نے اپنے صدارتی تقریر میں کہا تھا کہ میں اپنے شاگردوں کو شاعری کرنے سے منع کرتا ہوں لیکن ارشاد کو سننے کے بعد یہ کہنے پہ مجبور ہوں کہ ارشاد تم شاعری بند مت کرنا ۔ بنگال کے معروف اسکالر ڈاکٹر نعیم انیس اور ڈاکٹر دبیر احمد کے تاثرات بھی اپنے بزرگوں کی ہی رائے سے نہ صرف ملتے جلتے ہیں، بلکہ ان لوگوں نے لبیک کہا اورموجودہ دور کے ارشاد آرزو کونمائندہ شاعر قرار دیا ، اب ایک اور حیرت انگیز واقعہ بتاؤں کہ ساری رائے پہ اس وقت مہر لگ گئی جب راقم خواجہ احمد حسین اور ادبی خدمت گار قمرالدین ملک 27/ جولائی کو مہاجاتی سدن ہال میں ایک ساتھ بیٹھ کر نور سخن اور انداز بیاں (دبئ) کے مشاعرے کا لطف اٹھا رہے تھے تو میں نے قمرالدین ملک سے اچانک ایک سوال کیا کہ کلکتہ سے باہر کا اگر کوئی مشاعرےکا کنوینر آپ سے کلکتہ کے ایک شاعر کا انتخاب کرنے کو کہے گا تو آپ کس کا انتخاب کریں گے؟ قمرالدین ملک نے سیدھے سیدھے برجستہ جواب دیا کہ۔۔۔ "ارشاد آرزو ” اب میں مکمل طور سےمطمئن ہوگیا یقیںنآ ارشاد آرزو مقبول ترین شاعروں میں اہم نام ہے، بات یہاں صاف کر دوں کہ یہاں کسی کا کسی سے کوئی موازنہ نہیں سوال عوامی مقبولیت کا ہے تو ایک ادب نواز شخصیت جو کلکتہ کی ہر ادبی و علمی محفل میں دیکھا جاتا ہے۔ ان کی رائے سے ادبی سامعین بھی متفق ہونگے اور ایماندار ادباء و شعراء بھی. بہر حال کہہ لینے دیں کہ یہ میری ذاتی رائے ہے کہ
ارشاد آرزو جتنی اچھی شاعری کرتے ہیں اتنا ہی اچھا پڑھتے بھی ہیں. سننے والے پر ایک وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے. یہی نہیں بلکہ ارشاد ادبی محفلوں کی نقابت اور مشاعرے کی نظامت بھی خوب کرتے ہیں راقم خواجہ احمد حسین ان کی نظامت میں اردو اکاڈمی اور مغربی بنگال اقلیتی مالیاتی کمیشن کا مشاعرہ پڑھنے کا شرف حاصل کر چکا ہے، خالص ادبی لہجہ اور دلکش انداز بیاں کی وجہ سے لوگ قدر کی نگاہ سے دیکھتے بھی ہیں اور انہماک سے سنتے بھی ہیں. معروف شاعرمرحوم منور رانا اور استاد راشد خان مرحوم کی یاد میں مغربی بنگال اردو اکاڈمی نے ایک یادگار جلسہ بعنوان "گفتگو” منعقد کیا تو اس کی نظامت ارشاد آرزو کو دی گئی راجیہ سبھا کے ممبر اور اردو اکادمی کے وائس چیئر مین بھائی ندیم الحق نے بذات خود ارشاد آرزو کا استقبال کرتے ہوئے گلدستہ اور اسکارف پیش کر کے سینے سے لگایا. حاضرین نے زور دار تالیوں سے استقبال کیا جو ارشاد آرزو کی مقبولیت کی زندہ و عمدہ مثال ہے. یہی نہیں بلکہ ارشاد آرزو نے مغربی بنگال اردو اکاڈمی کے کل ہند مشاعرے کی بھی نظامت کی اور اپنے چھوٹے چھوٹے خوب صورت جملوں سے مشاعرے کو بام عروج پر پہنچا دیا کہ صدر مشاعرہ جناب منصور عثمانی نے، جو بذات خود عالمی سطح کے ناظم مشاعرہ کی حیثیت رکھتے ہیں، اپنے صدارتی خطبہ میں مبارک باد پیش کرتے ہوئے ارشاد آرزو کی تعریف کی اور کہا کہ آپ نے ایک بھی ایسا جملہ ادا نہیں کیا جو ضائع ہوا ہو.یہ آپ کا کمال ہے اس مشاعرہ میں دہلی سے عالمی شہرت یافتہ شاعر اقبال اشہر بھی تشریف لائے تھے اور خاکسار خواجہ احمد حسین بھی بحیثیت شاعر موجود تھا۔
ارشاد آرزو نے سال بھر قبل اپنا مجموعہ ” مطلع ” جب محبتوں سے مجھے عطا کیا تو میں نے اسی وقت وعدہ کیا تھا کہ یہ معمولی قلم کار اپنے چند ٹوٹے پھوٹے تاثرات ضرور پیش کرے گا مصروفیت کی بنا پر میرا یہ پہلا مضمون ہے جو کبھی ٹرین، کبھی بس اور پھر ہوٹل کے کمرے میں بیٹھ کر قلمبند کیا ۵/ فروری ۲۰۲۳ کو مسلم انسٹیٹیوٹ میں بھائی ارشاد نے اپنی غزلوں کا مجموعہ "مطلع ” مجھے دیا تھا. گھر آکر کتاب کھولی تو ان کا لکھے ہوئے جملے نے مجھے بے حد متاثر کیا: بسم اللہ ” عقیدت و محبت کے ساتھ بڑے بھائی جناب خواجہ احمد حسین کی خدمت میں؛ جن کی دعائیں ہمیشہ مجھے حصارِ خیر میں رکھتی ہیں/ طالب دعا/ ارشاد آرزو”
ان کے اس جملے سے ان کی معیاری نثر نگاری کا بھی پتہ چلتا ہے. جی چاہتا ہے کہ لکھتا ہی رہوں بہر حال مجموعہ حاصل کر ان کے اشعار پڑھنے کے بعد آپ خود ہی جج بن کر منصفانہ فیصلہ کر دیں مجھے یقین ہے کہ ۹۸ فی صد قاری ھم سبھوں کی رائے سے متفق ہونگے ملاحظہ فرمائیں ارشاد آرزو کے چند اشعار ۔۔
” مرا وجود مکمل ہے روز اول سے
ملاؤ اور نہ اب مجھ میں بے سبب مٹی”
____
” شجر نے جھوم کے تاشے بجائے پتوں کے
سفر سے لوٹ کے آیا کوئی پرندہ کیا”
_______
” میں نے سورج کی شعاؤں سے یہ فن سیکھا ہے
ڈوبتے ڈوبتے دنیا کی نظر میں رہنا”
________
"پلکوں سے چن کے لائے ہیں کانٹے بطور گل
گزرے ہیں جتنی بار تری رہ گزر سے ہم”
__________
” دریا کی اوقات بتانے نکلے ہیں
بارش کی خیرات پہ پلنے والے لوگ "
____________
” پھر جنوں کے پاؤں سے پھوٹے گی آواز جرس
منہ ذرا کھلنے تو دیجے حلقہء زنجیر کا”
” دامن میں لئے رہتی ہے الفاظ سبھی کے
اردو کسی بھاشا سے بغاوت نہیں کرتی”
___________
ارشاد آرزو کے اس سچے شعر پر دعاؤں کے ساتھ بس کہ
"میں ہوں خاموش اک طوفاں کے ڈر سے
مگر اشعار میرے بولتے ہیں”
خواجہ احمد حسین . سابق ممبر مغربی بنگال اردو اکاڈمی کلکتہ 9831851566