اردو شاعری کا جادوگر.   پروفیسر وسیم بریلوی 

0
0
جہاں رہے گا وہیں روشنی لٹائے گا
کسی چراغ کا اپنا مکان نہیں ہوتا
یہ شعر عصرِ حاضر کے معتبر شاعر، مشاعروں کی آبرو پروفیسر وسیم بریلوی کا ہے۔وسیم بریلوی نہ صرف ہندوستان میں بلکہ عالمی سطح پر اپنی پہچان بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں اردو کے اس نامور شاعر کا اصل نام زاہد حسن ہے جبکہ وسیم تخلص کیا کرتے ہیں ان کی پیدائش  یو ۔پی۔ کے شہر بریلی میں 8 فروری 1940 کو ہوئی والد صاحب کا نام شاہد حسین نسیم تھا وسیم بریلوی کا تعلق  نہ صرف دولت مند بلکہ علم و ادب والے خانان سے ہے ان کے خاندان میں سے بڑے بڑے عالم اور بزرگ پیدا ہوئے ہیں ۔وسیم بریلوی نے آگرہ یونیورسٹی سے ایم ۔اے کا امتحان امتیازی حیثیت سے پاس کیا۔ ملازمت کا آغاز دہلی یونیورسٹی سے کیا اور اس کے بعد رائے بریلی کالج میں شعبۂ اردو کے صدر کی حیثیت سے کام کیا اور بعد میں روہل کھنڈ یونیورسٹی میں ڈین آف فیکلٹی آرٹس مقرر ہوئے ۔شاعری کا شوق بچپن سے ہی تھا ابتدا میں اپنے والد صاحب سے شاعری کی اصلاح لیتے رہے اور بعد میں منتقم حیدری سے باقاعدہ طور پر اصلاح لی۔ان کا ادبی سفر نصب صدی پر محیط ہے۔  اس دوران ان کے متعدد شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں ۔
ان کا پہلا شعری مجموعہ 1966 میں "تبسم غم”کے نام سے شائع ہوا۔جبکہ ” آنسو میرے دامن تیرا ” نام کا شعری مجموعہ 1990 میں منظر عام پر آیا۔ اسی سال ” مزاج ” نام کا شعری مجموعہ شائع ہوا ۔جس کی خوب پزیرائی ہوئی۔اس شعری مجموعے پر اردو اکادمی لکھنئو کی جانب سے اعلیٰ تحقیقی ایوارڈ سے نوازا گیا۔اس کے بعد 2000 میں ” آنکھ آنسو ہوئی” اور "آنکھوں آنکھوں ” رہے جیسے شعری مجموعے پڑھنے کو ملے۔2007 میں ” موسم اندر باہر کے ” اور 2009 میں نعتیہ مجموعہ ” انداز گزارش” کے نام سے شائع ہو کر فضاوں کو مہکانے لگا۔اس کی بعد "آنسو بول” اور "آخری پڑاؤ” جیسی سوغاتیں ملیں
ہم کہہ سکتے ہیں کہ وسیم بریلوی پچھلے پچاس سالوں سے شاعری کے افق پر جگمگا رہے ہیں ۔اس دوران انہوں نے ہندوستان اور ہندوستان سے باہر پاکستان، دبئی، ابوظبی، شارجہ، قطر اور امریکہ کے علاوہ دنیا کے مختلف ممالک میں منعقد ہونے والے مشاعروں میں شرکت کی۔ وسیم بریلوی مشاعروں کے کامیابی کی ضمانت مانے جاتے ہیں  وسیم بریلوی تحت اللفاظ میں بھی پڑھتے ہیں تو چھا جاتے ہیں لیکن وہ کافی خوش الحان ہیں اس لیے کبھی کبھی ترنم میں پڑھتے ہیں تو مشاعرہ لوٹ لیتے ہیں اسی مناسبت سے انہیں رئیس المتغزلین بھی کہا جاتا ہے وسیم بریلوی مشاعروں کے ساتھ ساتھ ادبی حلقوں میں بھی برابر کی اہمیت رکھتے ہیں۔وسیم بریلوی اپنی شاعری کے ذریعے بہت ہی سیدھے سادھے انداز میں دنیا کی حقیقتوں کو بے نقاب کرنے کا ہنر جانتے ہیں وسیم بریلوی کا ماننا ہے کہ شاعری اپنے عہد کی ترجمان ہوتی ہے اس اعتبار سے دیکھا جائے تو انہوں نے اپنی شاعری میں اپنے عہد کے کم و بیش سارے درد و کرب سمو دئیے ہیں وہ خود اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ
وسیم کیسے زمانہ ہمیں بھلائے گا
ہمارے شعروں میں اک دور سانس لیتا ہے
میری تصویر کے یہ نقش ذرا غور سے دیکھ
ان میں اک دور کی تاریخ نظر آئے گی
وسیم بریلوی کی شاعری کے مخلتف پہلو ہیں ان کی شاعری میں محض رومانی عنصر ہی نہیں بلکہ  اقدار کی پاداری، ہجر کا درد، غمِ روزگار، آگہی اور درد و کرب جیسے موضوعات پنہاں ہیں جہاں اپنی شاعری میں یہ پیغام دیتے ہیں کہ ہمیں دوسروں کی عزت کرنی چاہیے کیونکہ مفاہمت اور صلح ہی کامیاب کی کنجی  ہے جیسے
اپنے ہر ہر لفظ کا خود آئینہ ہو جاؤں گا
اس کو چھوٹا کہہ کے میں کیسے بڑا ہو جاؤں گا
وہاں وسیم بریلوی نئی پود کو یہ پیغام بھی دیتے ہیں کہ  اپنے آپ کو دوسروں کے سپرد مت کیا کرو۔اپنی حدوں میں رہ کر اصولوں کی آبیاری کیا کرو۔لکھتے ہیں کہ
اصولوں پر جہاں آنچ آئے ٹکرانا ضروری ہے
جو زندہ ہو تو پھر زندہ نظر آنا ضروری ہے
نئی عمروں کی خود مختاریوں کو کون سمجھائے
کہاں سے بچ کے چلنا ہے کہاں جانا ضروری ہے
وسیم بریلوی کی شاعری نئی پود کو یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہمیں مغرب کی تقلید نہیں کرنی چاہیے بلکہ اپنی بنیادوں پر قائم رہنا سکھنا چاہیے اسی صورت میں ہمارا وجود قائم رہ سکتا ہے  ورنہ ہمارے اقدار اور ہماری تہذیب خطرے میں ہے لکھتے ہیں کہ
اپنی بنیادوں پر قائم جو نہیں رہ پاتے
وہیں آنسو کی طرح آنکھ سے گر جاتے ہیں
تیز ہوا کے جشن میں لوگ گئے تو تھے مگر
تن سے کوئی قبا چھنی سر سے کوئی ردا گئی
ویسے تو ہر شاعر محبت کا ہی طرفدار ہوتا ہے لیکن وسیم بریلوی محبت کو سب سے بڑا ہتھیار مانتے ہیں کہتے ہیں کہ تاریخ گواہ ہے کہ نفرت کو کبھی نفرت سے نہیں ہرایا گیا۔بلکہ نفرت کو محبت کی دھار سے ٹکڑے ٹکڑے کیا جا سکتا ہے لکھتے ہیں کہ
وہ  میرے چہرے تک اپنی نفرتیں لایا تو تھا
میں نے اس کے ہاتھ چومے اور بے بس کر دیا
آپ ناراض ہوں جھنجھلائیں خفا ہو جائیں
بات اتنی بھی نہ بگڑے کی جدا ہو جائیں
آو یہ محبت ہے اسے دونوں نبھائیں
ایک دل میں سما جائے یہ وہ راز نہیں ہے
وہ میرے پیٹھ میں خنجر ضرور اتارے گا
مگر نگاہ ملے گی تو کیسے مارے گا
آنسوؤں کے سامنے پتھر دلی کی کیا بساط
اچھے اچھے گھر دھرک جاتے ہیں برساتوں کے بعد
وسیم بریلوی سے عصری مسائل کو بہت ہی خوبصورتی کے ساتھ اپنی شاعری میں جگہ دی ہے ۔موجودہ دور میں ٹوٹتے رشتوں اور بکھرتے خاندانوں کا غم اوعاس کے علاج کی جانب انہوں نے کچھ اس طرح کے اشارے بھی کئے ہیں
تھکے ہارے پرندے جب بسیرے کے لیے لوٹیں
سیلقہ مند شاخوں کا لچک جانا ضروری ہے
 جنہیں آپس میں ٹکرانے سے ہی فرصت نہیں ملتی
انہی شاخوں کے پتے لہلہانا بھول جاتے ہیں
وسیم بریلوی کی شاعری کو عصرِ حاضر کے غموں کی گواہی کہا جاتا ہے ہاں یہ الگ بات ہے کہ وہ رو کر اپنا غم بیان نہیں کرتے ہیں اور ہمیں بھی غم بیان کرنے کا کوئی اور راستہ تلاش کرنے کی دعوت دیتے ہیں لکھتے ہیں کہ
غم بیاں کرنے کا کوئی اور ڈھنگ ایجاد کر
تیری آنکھوں کا یہ پانی تو پرانا ہوگیا
مزکورہ شاعر نے موجودہ دور کی چند حقیقتوں کو بڑی بے باکی اور سادگی سے بے نقاب کرنے کی کوشش کی ہے بلکہ چند لوگوں کی ڈرامہ بازی، سیاست اور منافقانہ رویے کی بھی خبر لی ہے لکھتے ہیں کہ
میرے بچوں کے آنسو پونچھ لینا
لفافے کا ٹکٹ جاری نہ کرنا
اسی کو جینے کا حق ہے جو اس زمانے میں
ادھر کا لگتا رہے اور ادھر کا ہو جائے
بندہ بننے کو یہاں کوئی بھی تیار نہیں
سب اسی دھن میں ہیں کہ خدا ہو جائیں
شرافتوں کی یہاں کوئی اہمیت ہی نہیں
کسی کا کچھ نہ بگاڑو تو کون ڈرتا ہے
وسیم بریلوی کی شاعری منظر نگاری کے اعتبار سے بھی بہت زرخیز ہے ان کی شاعری میں منظر نگاری کی بہترین مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں۔لکھتے ہیں کہ
شور ہوتا تھا تو کانوں سے سنا جاتا تھا
اب تو یہ حال ہے کہ آنکھوں سے نظر آتا ہے
شاعر چونکہ فطرتاً حساس ہوتا ہے ۔اور اپنے گردونواح کے حالات سے متفق نہیں ہوتا ہے لہذا وہ اسی کوشش میں رہتا ہے کہ حالات کو اپنے موافق بنائے ایسا چونکہ ہوتا نہیں ہے لہذا وہ ان حالات کے خلاف احتجاج کرتا ہے۔اور احتجاجی رنگ ہی شاعر کو زندہ رکھتا ہے ۔اور باقی لوگوں سے ممتاز اور منفرد بنا دیتا ہے۔وسیم بریلوی کی شاعری میں بھی احتجاجی آہنگ موجود ہے مثال کے طور پر مندرجہ ذیل اشعار کا حوالہ دیا جاسکتا ہے
تم ہمیں گرانے میں لگے تھے، تم نے سوچا ہی نہیں
میں گرا تو مسئلہ بن کے کھڑا ہو جاؤں گا
دریچوں تک چلے آئے تمہارے دور کے خطرے
ہم اپنے گھر سے باہر جھانکنے کا حق بھی کھو بیٹھے
جس زمیں پر میں کھڑا ہوں وہ مری پہچان ہے
آپ آندھی ہیں تو کیا مجھ کو اڑا لے جائیں گے
آپ بس کردار ہیں اپنی حدیں پیچانئیے
ورنہ پھر اک دن کہانی سے نکالے جائیں گے
میں قطرہ ہو کے بھی سمندر سے جنگ لیتا ہوں
مجھے بچانا سمندر کی ذمّہ داری ہے
تو سمجتا ہے رشتوں کی دہائی دیں گے
ہم تو وہ ہیں تیرے چہرے سے دکھائی دیں گے
فیصلہ لکھا ہوا رکھا ہے پہلے سے خلاف
آپ کیا خاک عدالت میں صفائی دیں گے
میں اپنے پاؤں پر زنجیر ڈال کر خود ہی
یہ سوچتا ہوں کہ آخر میری خطا کیا ہے
مسلمانوں کی موجودہ پستی، خستہ خالی اور ہر در ہر جبہ سائی کو موضوع کو وسیم بریلوی نے ایک درد بھرے شعر میں کچھ اس طرح پیش کیا ہے لکھتے ہیں کہ
عظیم تھے یہ دعاؤں کو اٹھنے والے ہاتھ
نہ جانے کب انہیں کاسہ بنا لیا میں نے
وسیم بریلوی کی شاعری میں رومانی عنصر بھی بہت حد تک پایا جاتا ہے۔ان کے رومانی اشعار جب ان کی زبانیں سنتے ہیں تو ان اشعار کی چاشنی اور بڑھ جاتی ہے لکھتے ہیں کہ ۔
ہمیں جلدی بہت تھی عشق میں برباد ہونے کی
کہ پیش و پس میں پڑ کے وقت برباد کیا کرتے
آج بھی اس زندگی کی لاش میں
جان پڑ جاتی ہے تیرے نام سے
شرطیں لگائی جاتی نہیں دوستی کے ساتھ
کیجئے مجھے قبول میری ہر کمی کے ساتھ
تو چھوڑ رہا ہے تو خطا اس میں تری کیا
ہر شخص میرا ساتھ نبھا بھی نہیں سکتا
آتے آتے میرا نام سا رہ گیا
اس کے ہونٹوں پہ کچھ کانپتا رہ گیا
تم میری طرف دیکھنا چھوڑو تو بتاؤں
ہر شخص تمہاری ہی طرف دیکھ رہا ہے
وسیم صاحب نے اپنی شاعری میں کچھ ایسا بھی کہا ہے کہ اسے اگر خدشات سے تعبیر کیا جائے تو بےجا نہ ہوگا جیسے
آنکھوں کو موند لینے سے خطرہ نہ جائے گا
وہ دیکھنا پڑے گا جو دیکھا نہ جائے گا
دور تک ہاتھ میں کوئی پتھر نہ تھا
ہھر بھی ہم جانے کیوں سر بچاتے رہے
حالانکہ انہوں نے نئی نسل کو موجودہ دور کی محبت سے بلکہ آج کے زمانے کے سچ سے کچھ اس طرح بھی خبردار کیا ہے کہ
وہ دن گئے کہ محبت تھی جان کی بازی
کسی سے اب کوئی بچھڑے تو مر نہیں جاتا
وسیم بریلوی محض غزل گو شاعر ہی نہیں تھے بلکہ انہوں نے نظمیں بھی بہت خوب لکھی ہے اور فلموں کے لیے گیت بھی لکھے ہیں ان کی ایک نظم ” بلا عنوان ” ملاحظہ فرمائیں
یہ عارض تیرے
جیسے بوسیدہ قبریں
یہ عارض تیرے
بوسہ گاہِ حوادث
جو شاداب رہتے
تو اوراق دوران
ہزاروں فسانوں سے محروم ریتے
وسیم بریلوی کا ایک پہلو نعتیہ کلام بھی ہے کیونکہ بریلی میں پیدا ہوئے ہیں اور بریلی علم و ادب کا مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ بریلی سے متعدد نعت گو پیدا ہوئے ہیں اگر چہ وسیم بریلوی کا کلام ضخامت میں کم ہی ہے لیکن ان کی نعتیہ شاعری میں نیا رنگ و آہنگ اور نئے الفاظ کا استعمال ان کی اس شاعری کو ممتاز بنا دیتا ہے لکھتے ہیں کہ
کھڑی ہیں دست بستہ خوشبوئیں پھولوں کی پلکوں پر
کسی کا جیسے نعت پاک کہنے کا ارادہ ہے
فلک کو میزبانی کی سعادت جب ملی ہوگی
تو بے چاری زمیں کی رات آنکھوں میں کٹی ہوگی
عرب کے چاند کی آمد سے پہلے کس نے سوچا تھا
کہ تپتی ریت کی قسمت میں ایسی چاندنی ہو گی
پروفیسر وسیم بریلوی نے نہ صرف شاعری کی ہے بلکہ اعلی سطح پر ادب اور شاعری پڑھانے کا فریضہ بھی بہ حسن خوبی انجام دیا ہے۔ انہیں ان کی ادبی خدمات کے سلسلے میں میر اکادمی کی جانب سے ” امتیاز میر” اور کلا سمرتی لدھیانہ کا اعلی تحقیقی ایوارڈ بھی عطا کیا گیا۔اس کے علاوہ ہندی اردو سنگم لکھنو کا غزل ایوارڈ بھی عطا کیا گیا۔  وسیم بریلوی پر تحقیقی کام بھی ہوا ہے ایک درجن سے ذائد اسکالر ان پر تحقیقی کام کر کے پی ۔ایچ ۔ڈی کی ڈگری حاصل کر چکے ہیں ۔اتنا ہی نہیں ملک کی جانی مانی ادبی شخصیتوں نے ان کی ادبی خدمات کا اعتراف کیا ہے اس حوالے سے فراق گورکھپوری لکھتے ہیں کہ
” میں وسیم بریلوی اور ان کے کلام دونوں سے محبت کرتا ہوں ۔مگر کیا کروں یہ ظالم صرف نام کا مسلمان نہیں بلکہ نماز بھی پابندی سے پڑھتا ہے اور میں اس کے برعکس ۔وسیم کے کلام میں آگہی اور شعور کی تہوں کا جائزہ ہے ایسا شعور اور آگہی جو کیف و سرور کا گلدستہ ہے۔ یہ اکثر خدوخال سے بلند ہو کر کائنات کی رنگینیوں اور دلکشیوں سے لطف حاصل کرتے ہیں ” جگن ناتھ آزاد ان کی شاعری کے حوالے سے رقمطراز ہیں کہ ” شاعری میں وسیم بریلوی کی آواز ایک نئی آواز ہے ۔اپنے معاصرین سے الگ ۔ان کی شاعری نکھری ہوئی ستھری شاعری ہے اور صحت مند عناصر سے لبریز ہے ” جبکہ پروفیسر ناشر نقوی لکھتے ہیں کہ ” وسیم بریلوی کی شخصیت کے عالمانہ اور حکیمانہ پہلو بھی ہیں ۔آج ہماری پیاری زبان اردو جو عالمی اعداد وشمار کے مطابق دنیا کی تیسری بڑی زبان بن چکی ہے اس کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر فروغ دینے میں جن مشاعروں نے گزشتہ پچاس برس میں اہم رول نبھایا ۔ان مشاعروں میں وسیم بریلوی کی شرکت خاص اہمیت رکھتی ہے ۔اس کے علاوہ وسیم بریلوی کی شاعری پر پروفیسر علی احمد فاطمی، عشرت ظفر، اور صبا فردوس نے بھی حوصلہ افزا تبصرے کئے ہیں ۔وسیم بریلوی کی شاعری کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ ان کے متعدد اشعار زبان ذد عام ہوچکے ہیں شاید ہی کوئی اور شاعر ہوگا جس کے  اتنے اشعار ضرب المثل بن چکے ہوں  ۔ان کے چند مشہور اشعار ملاحظہ فرمائیں
وہ جھوٹ بول رہا تھا بڑے سلیقے سے
میں اعتبار نہ کرتا تو اور کیا کرتا
غریب لہروں پر پہرے بٹھائے جاتے ہیں
سمندروں کی تلاشی کوئی نہیں لیتا
کھلی چھتوں کے دئیے کب کے بجھ گئے ہوتے
کوئی تو ہے جو ہواؤں کے پر کترتا ہے
تم آئے ہو تو کچھ چاندنی سی باتیں ہوں
زمیں پہ چاند کہاں روز روز اترتا ہے
وہ اپنی وقت کے نشے میں خوشیاں چھین لے تجھ سے
مگر جب تم ہنسی بانٹو تو اس کو بھول مت جانا
محبت میں بچھڑنے کا ہنر سب کو نہیں آتا
کسی کو چھوڑنا ہو تو ملاقاتیں بڑی کرنا
حادثوں کی ذد پہ ہیں تو مسکرانا چھوڑ دیں
زلزلوں کے خوف سے کیا گھر بنانا چھوڑ دیں
پھول تو پھول ہیں آنکھوں سے گھرے رہتے ہیں
کانٹے بیکار حفاظت میں لگے رہتے ہیں
مجملہ طور پر دیکھا جائے کہ وسیم بریلوی کی شاعری پر وقت کی گرد جمنے کے بجائے ان کی شاعری میں نکھار آتا جارہا ہے اور ان کے اشعار کے نئے نقطے اور نئے معنی منظر عام پر آتے جارہے ہیں ۔ اردو کے اس معتبر شاعر کی طبیعت ان دنوں ناساز ہے اللہ کرے کہ ان کا سایہ اردو شعرو ادب پر بنا رہے
سبزار احمد بٹ
اویل کولگام

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا