اردو جریدہ ’’تمثیل نو ‘‘ دربھنگہ (شمارہ ۸۰-۸۵) : ایک مطالعہ

0
0

ڈاکٹر مجیر احمد آزاد
’’تمثیل نو ‘‘دربھنگہ اپنی اشاعت کے اکیسویں سال میں داخل ہو چکا ہے ۔کسی بھی ادبی جریدے کا اتنے برسوں سے لگاتار شائع ہوتے رہنا اس کی گوناگوں خصوصیات اور مقبولیت کو ظاہر کرتا ہے ۔ بلا شبہ ’جدید تر شعری و ادبی رجحان کا ترجمان ‘ یہ رسالہ متاثر کرنے والے اپنے مشمولات کے سبب اردو کی دوردراز بستیوں میں بھی مقبول ہے۔گذشتہ شماروں کی طرح زیرِ نظر شمارہ بھی کئی لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے ۔اس میں خصوصی پیش کش کے تحت دو کتابیں (جہانِ ادب کے سیاح: ڈاکٹر امام اعظم‘ اور ’نوائے آرزو‘) اور ایک رسالہ (’تمثیل نو دربھنگہ‘) شامل ہیں ۔ ان موضوعاتی مطالعے کے ساتھ ساتھ اچھی خاصی تعداد میں مضامین کی شمولیت نے اس شمارہ کو قاری کے لئے مزید دلچسپی کا سامان مہیا کیا ہے۔ افسانے ،غزلیں ،نظمیں ،تبصرے وغیرہ حسب روایت اس کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں ۔
اداریہ ’’مجھے کچھ کہنا ہے!‘‘ میں ڈاکٹر امام اعظم نے اردو ادبی رسائل کے تعلق سے ایک اہم نکتے کا ذکراس طرح کیا ہے کہ:
’’…اردو رسالہ نکالنا خسارے کا سودا ہی ہے ۔ اشاعت کے بعد کاپیاں فروخت کم ہوتی ہیں ، تحفتہً زیادہ دی جاتی ہیں۔ دور دراز کے قارئین تک رسالہ پہنچانا دشوار تر مسئلہ ہے کیوں کہ ڈاک خرچ میں پچھلے کئی برسوں سے بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ امید ہے کہ قارئین ان مسائل کو سمجھیں گے اور ’’تمثیلِ نو‘‘ کے علاوہ بھی شائع ہونے والے دیگر اردو رسائل ، جرائد اور اخبارات کی مالی سرپرستی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے۔‘‘
کیا اس حقیقت سے نگاہ چرانا ممکن ہے ؟اداریہ کے بعد اس رسالے کا حصہ ’’ادبی و ثقافتی خبریں اور وفیات ‘‘ پورے آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہے۔اس پیش کش کے ذریعے اردو آبادی کی تمام دلچسپیوں کا اندازہ کیا جا سکتا ہے نیز مرحومین کو جاننے کا ذریعہ بھی مل جاتا ہے ۔حمد باری تعالیٰ / نعت شریف(روشن ضمیر /نذر فاطمی) کے بعد چند اہم خطوط پیش کیے گئے ہیں ۔ان مکتوبات میں مظہر امام کے نام شمس الرحمن فاروقی کے ۳۲؍خطوط کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مکتوب نگار اور مکتوب الیہ دونوں کی حیثیت اور خدمات اردو ادب میں ناقابل فراموش ہیں ۔ا ن خطوط میںصحت مند ادبی مباحثہ کی جو شکل موجود ہے وہ قابل تقلید ہے ۔ ڈاکٹر امام اعظم کے نام سیّد محمد ولی رحمانی اورپروفیسر خالد حسین خاں کے خطوط میں ادب اور ادبی تاریخ کا درک موجود ہے۔ تہنیت نامہ بنام ثوبان فاروقی ڈاکٹر معراج الحق برق ، جواب نامۂ لاجواب بنام معراج الحق برق ،ڈاکٹر ثوبان فاروقی ہدیۂ تشکر (جوابی منظوم خط بنام ثوبان فاروقی ) دلچسپ شاعری سے روبرو ہونے کا موقع دیتا ہے ۔ڈاکٹر معراج الحق برق اور ڈاکٹر ثوبان فاروقی کی شعری استعداد ان کی قادر الکلامی کی مثال پیش کرتی ہے ۔ڈاکٹر معراج الحق برق کی مزاحیہ نظم’’کھینی امان اللہ کی‘‘کا جواب نہیں ۔ ’’برج حمل‘‘شموئل احمد کی زائچہ نگاری ،ابوبکر محمد بن زکریا رازی: حیات و خدمات(حکیم محمد شیراز کاطب یونانی کے تعلق سے مضمون )ادب کی عام روش سے الگ ہے ۔ ڈاکٹر امام اعظم کا سفرنـامہ’’بھوپال کا ایک یادگار سفر‘‘بھوپال کی تاریخی ،ثقافتی اور ادبی و علمی معلومات سے آراستہ ہے ۔
خصوصی پیش کش کے تحت پہلی کتاب ’’جہانِ ادب کے سیاح: ڈاکٹر امام اعظم‘‘ ہے جسے ڈاکٹر خالد حسین خاں نے تحریر کیا ہے ۔اس کے مشمولات کا مرکز ڈاکٹر امام اعظم اور ان کی ادبی کارگزاریاں ہیں ۔اس میں مطالعے کی سیاحی کو اکائی میں برآمد کرتے ہوئے جو عنوان مختص کیا ہے وہ ہے ’’جہانِ ادب کے سیاح: ڈاکٹر امام اعظم‘‘ ۔ اس کے بعد شخصیت کے نمایاں رنگوں کو پیش کرنے کے لئے جو سرخیاں طے کی گئیں ہیں ان میں بھی تخلیق کار کو جاننے کی خواہش موجود ہے ۔ ’’تمثیل نو : ادبی صحافت کا نقش‘‘(مرتب: ڈاکٹر ابرار احمد اجراوی) ، ڈاکٹر امام اعظم کی مرتبہ کتاب ’’سہرے کی ادبی معنویت‘‘، ’’ڈاکٹر امام اعظم بحیثیت شاعر‘‘ ، ’’چٹھی آئی ہے!‘‘ (مشاہیر کے خطوط امام اعظم کے نام ، مرتب :شاہد اقبال، کولکاتا) ،’’دربھنگہ کا ادبی منظر نامہ :ڈاکٹر امام اعظم کی ادبی و صحافتی خدمات کے حوالے سے‘‘(مصنف : ڈاکٹر سرور کریم)اور ’’ڈاکٹر امام اعظم : اجمالی جائزہ‘‘ (مصنف / مؤلف : ڈاکٹر ایم صلاح الدین )مطالعے کے وہ روپ ہیں جن سے صاحب کتاب اور ممدوح دونوں کی علمی و ادبی خدمات کا احساس ہوتا ہے ۔اس کتاب کے حوالے سے ’’جہانِ ادب کے سیاح: ڈاکٹر امام اعظم ،زندہ لمحوں کے شعور‘‘ میں احسان ثاقب لکھتے ہیں کہ :
’’لفظوں کی یہ تلاش اور اندرونی کیفیت کا ادراک و احساس ڈاکٹر امام اعظم کو معنوی عظمت کی طرف گامزن کرتا ہے۔ تہہ در تہہ ان کی فطری ہوش مندی غیر معمولی تخلیقی بصیرت کو دوام عطا کرتی ہے۔مختصر یہ ہے کہ ’جہانِ ادب کے سیاح:ڈاکٹر امام اعظم‘ امام اعظم کے تعلق سے تخلیقی زبان و اسلوب اور اعتراف و اسلاف کا موثر وسیلہ ہے۔‘‘
شمیم قاسمی نے ’’جہانِ ادب کے سیاح: ڈاکٹر امام اعظم ‘ ‘ڈاکٹر خالد حسین خاں کے ادبی جائزے میں ادبی شخصیت کے احتساب کی خوبیوں کا حوالہ دیتے ہوئے نتیجہ بر آمد کیا ہے کہ:
’’سیاح ادب کی موجِ حوادث میں ہچکولے کھاتی کشتی کے بادبانوں کو سختی سے پروفیسر خالد نے کچھ یوں باندھا ہے کہ جہانِ ادب کے سیاح یعنی امام اعظم کا یہ ادبی سفر لاسمتیت کا شکار ہونے سے بہرحال بچ گیا ہے۔‘‘
استاد شاعر اور ادیب جناب حلیم صابر کا مضمون ’’جہانِ ادب کے سیاح: ڈاکٹر امام اعظم ‘ ایک تاثر‘‘ شامل ہے۔ اس میں انہوں نے ان تمام کتابوں کا ذکر کیا ہے جن کی سیاحی کرتے ہوئے ڈاکٹر خالد حسین خاں نے ایک اہم کتاب تصنیف کر دی ہے ۔’’ڈاکٹر امام اعظم:جہانِ ادب کے سیاح‘ کا تجزیاتی مطالعہ‘‘ کی سرخی سے ایم۔ نصر اللہ نصر لکھتے ہیں کہ :
’’پروفیسر خالد حسین خاں کا ادبی مطالعہ کا فی وسیع ہے ۔ ان کی زبان میں سلاست ہے ، ان کا اسلوب بھی خوب ہے ۔ انداز بیان تو حد درجہ دلچسپ اور قابلِ تحسین ہے ۔ مسجع و مقفّیٰ عبارت لکھنے میں و ہ ماہر ہیں ۔ ان کے یہاںگلابی اردو کے جراثیم کثرت سے موجو د ہیں ۔ اردو کے استاد تو وہ رہے ہیں لیکن ادب و لسانیات کے بھی ماہر ہیں۔ ان کی مرصع سازی اور ادبی گہرباری قابل دید ہے۔ ‘‘
ڈاکٹر مجیر احمد آزاد نے مذکورہ کتاب کے مشمولات کا جائزہ لیتے ہوئے خوبیوں کے سبب اسے ’’ڈاکٹر امام اعظم شناسی کا ایک نیا باب‘‘ قرار دیا ہے ۔ ان کا ماننا ہے کہ:
’’ ڈاکٹر امام اعظم کے حوالے سے تحریر کی گئی کتابوں میں پروفیسر خالد حسین خاں کی کتاب کو انفرادیت حاصل ہے۔ اس میں شخصیت کو سمجھنے کا جو طریقہ کار اختیارکیاگیا ہے اس میں بھرپور مطالعے کا درک ،معاصر ادبی صورت حال سے آگاہی ،بے جا ستائش سے اجتناب اور ایماندارانہ اپروچ موجود ہے ۔ جن کتابوں پر گفتگو کی گئی ہے ان کے محتویات کے حسن و قبح روشن ہو گئے ہیں ۔ساتھ ہی ساتھ کئی موضوعات پر بحث و تمحیص کی شمولیت سے دلچسپ باتیں بھی سامنے آئی ہیں اور معروف ادبی شخصیات کے کارناموں کا اعتراف و انکار بھی زیر بحث آیا ہے۔ اندازِ بیان کے سلسلے میں ذکر کیا جا چکا ہے کہ مصنف کو الفاظ کے باموقع اور بامعنی استعمال پر دسترس حاصل ہے۔ مرصع اور مسجع تحریرکا سحر سر چڑھ کر بولتا ہے اور شخصیت شناسی کا نیا باب کھلتا جاتا ہے۔‘‘
ڈاکٹر احسان عالم نے ’’جہانِ ادب کے سیاح: ڈاکٹر امام اعظم ‘پروفیسر خالد حسین خاں کی عمدہ پیشکش‘‘ کے عنوان سے صاحب کتاب اور ممدوح کی ستائش کرتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں :
’’واقعی ڈاکٹر امام اعظم نے اردو ادب میں کچھ انفرادیت لانے کی کوشش کی ہے۔ اردو تنقید، تحقیق، تبصرہ ، تجزیہ ، ترجمہ اور تالیف کو ایک نیا وژن عطا کرنے کی ہر سعی ان کے یہاں ملتی ہے۔ مانو کے ریجنل ڈائرکٹر کی حیثیت سے وہ کافی مشغول رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر امور میں کئی طرح کے کام ایک ساتھ کرنا ان کی نمایاں خصوصیت ہے۔ نثر نگاری ، شاعری ، تنقید ، تحقیق کے علاوہ صحافت کے میدان میں چار چاند لگانے کا کام ڈاکٹر امام اعظم نے بخوبی انجام دیا ہے۔ ان کی ایسی ہی خوبیوں کو پروفیسر خالد حسین خاں نے اپنی ا س کتاب میں نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے۔ ‘‘
قمر اعظم صدیقی نے ’’جہانِ ادب کے سیاح: ڈاکٹر امام اعظم ‘ایک جائزہ‘‘ میں مصنف کی محنت اور محبت پر خامہ فرسائی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
’’دراصل یہ کتاب ڈاکٹر امام اعظم پر لکھی گئی کتاب یا امام اعظم صاحب کی لکھی ہوئی کتاب کے تجزیے کا مجموعہ کہا جا سکتا ہے جس میں مصنف نے ڈاکٹر امام اعظم کی سیرت ، ذکر ، فکر ، فن اور کارناموں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کتاب کے مطالعہ کے بعد بخوبی اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر خالد حسین خاں صاحب نے بہت ہی محبت ، عقیدت اور محنت کے ساتھ اس کتاب کو تیار کیا ہے۔ مصنف کی ڈاکٹر امام اعظم صاحب سے کبھی رو برو ملاقات نہیں ہوئی ہے باوجود اس کے انہوں نے اپنی فراخ دلی اور وسیع القلبی کا مظاہرہ کیا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ڈاکٹر خالد حسین خاںامام اعظم صاحب کی علمی صلاحیت کے قدر داں ہیں۔ ‘‘
’’جہانِ ادب کے سیاح‘‘ کے لئے مشمولہ مضامین جہاں ایک طرف پروفیسر خالد حسین خاںکی مطالعہ پسندی ،تجزیاتی اندا زنظر اور عمدہ اسلوب سے گفتگو پر محیط ہے وہیں دوسری طرف ڈاکٹر امام اعظم کی ادبی کارگزاریوں کے اقرار اور ان کی مقبولیت پر بھی خامہ فرسائی کی گئی ہے ۔تینوں مخصوص مطالعے میں یہ حصہ شاندار اور مکمل ہے ۔
دوسرا خاص پیش کش ’’نوائے آرزو ‘‘ شاہد اقبال (کولکاتا) کی مرتبہ کتاب پر محیط ہے ۔ یہ ڈاکٹر امام اعظم کے فرزند ڈاکٹر نوا امام کی شادی کے موقع پر ترتیب دی گئیسہروں اور تہنیتی نظموں کا مجموعہ ہے ۔ اس ترتیب میں 60 شعراء کے کلام شامل ہیں۔اس منفرد کتاب کے اختصاص کو نمایاں کرتے ہوے تینوں مضامین قابل مطالعہ ہیں ۔ ’’نوائے آرزو : تہنیتی شاعری کا ایک بے مثل تحفہ‘‘(ڈاکٹر مجیر احمد آزاد )،’’نوائے آرزو( تہنیتی نظمیں): ایک تاثر‘‘(ڈاکٹر احسان عالم)،’’سہروں اور تہنیتی نظموں کی ایک منفرد پیشکش ’نوائے آرزو‘‘(احسان ثاقب) میں سہرے کے شیڈز مطالعہ کا حصہ بنے ہیں ۔احسان ثاقب کے یہ جملے اس کتاب کا اچھا تجزیہ ہیں ۔وہ لکھتے ہیں کہ:
’’میں ایک کھلے ذہن کا آدمی ہوں۔ زیادہ گہری بات نہیں کروں گا۔’’نوائے آرزو‘‘ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔ اس کتاب میں جتنے بھی اصناف و اوزان کا اجتماع ہے اور اس ضمن میں جتنے صاحبِ طرز قدیم اور جدید شعراء کرام نے طبع آزمائی کی ہے ان کے وجدانی شعور کا زاویہ اپنی جگہ مستحکم ہے۔‘‘
تیسرے خصوصی پیشکش کے تحت ’’تمثیلِ نو‘‘ اردو جریدہ، دربھنگہ کو شامل کیاگیا ہے ۔ اس میں ’’تمثیل نو‘‘ دربھنگہ جولائی ۲۰۱۷ء -جون ۲۰۱۸ء : ایک تجزیہ(نقشبند قمر نقوی بخاری بھوپالی)،’’تمثیل نو‘‘ رسالوں کی ادبی تاریخ کا اہم اور محفوظ حصہ (عشرت ظہیر)،’’تمثیل نو‘‘ دربھنگہ : ایک تاثر(تبسم فاطمہ)،’’تمثیل نو‘‘ دربھنگہ : ایک مطالعہ (ڈاکٹر مجیر احمد آزاد) ،’’تمثیل نو‘‘ دربھنگہ جولائی ۲۰۱۹ء -دسمبر ۲۰۲۰ء : ایک تاثر(ڈاکٹر احسان عالم )مضامین کے محتویات میں اس رسالہ کی اہمیت اور مقبولیت کا ذکر ہے ۔نقشبند قمر نقوی بخاری بھوپالی کا قول نقل کرتا ہوں جس میںتمثیل نو کے لئے ان کا منفرد انداز موجود ہے :
’’اگر میں واقعی رسالے ’’تمثیل نو‘‘ کے بارے میں تفصیل سے لکھنا ہوں… تو بتائیے کیا لکھوں… کیا یہ لکھوں کہ آپ رسالے کو ایک دستاویز بنادیتے ہیں، اس میں وہ سب کچھ ہوتا ہے جو ایک باعلم قاری کسی معیاری رسالے سے توقع کرسکتا ہے، بلکہ اس سے بھی کسی قدر زیادہ…۔‘‘
یہ شمارہ خصوصی مطالعہ کے علاوہ متفرق مضامین بھی اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ پروفیسر خالد حسین خاں،نذیر فتح پوری،رئیس صدیقی،ڈاکٹر عشرت بیتاب،پروفیسر اسلم جمشیدپوری،ڈاکٹر امام اعظم،ایم نصر اللہ نصر،سلطان آزاد،پروفیسر آفتاب احمد آفاقی،ڈاکٹرایم۔ صلاح الدین،ڈاکٹر نصرت جہاں،انوارالحسن وسطوی،ڈاکٹر مجیر احمد آزاد ،ڈاکٹر احسان عالم ،ڈاکٹر اسماء پروین،ڈاکٹر محمد مجاہد حسین،ڈاکٹر غلام نبی کمار،ڈاکٹر وصی احمد شمشاد،ڈاکٹر مرزا صبا عالم بیگ ،محمد معتصم باللہ،نازیہ پروین وغیرہ کے مضامین میں شخصی اور متنوع صنفی مطالعے کا عکس موجود ہے ۔ان مضامین کے دامن میں شاعری ،ڈرامہ نگاری ،ناولٹ نگاری ،افسانہ تنقید اور ان سے وابستہ قلم کاروں کی تحریروں کے حوالے موجود ہیں ۔ ’’پی جی شعبۂ اردو، ایل این ایم یو، دربھنگہ کی پیش رفت‘‘ تحقیق و جستجو کی عمدہ مثال ہے جسے ڈاکٹر امام اعظم نے حرف و لفظ کا جامہ عطا کیا ہے ۔
اس شمارے میں پانچ افسانے شامل ہیں۔درد کا چاند بجھ گیا(سید منظر امام مرحوم)،میرے خواب ریزہ ریزہ(ڈاکٹر عشرت بیتاب)،اُمید کی کرن(سلطان احمد ساحل)، متلون گرگٹ: سہ بروتی(حنیف سید)اور کورونا کلچر(ڈاکٹر مشتاق احمد وانی)۔سبھی افسانے متاثر کرتے ہیں لیکن مرحوم سید منظر امام کے بیان کا حسن افسانے سے الگ نہیں ہوئے دیتا ہے۔ نظمیں اور غزلیں عمدہ انتخاب کی مظہر ہیں۔ ’’کووڈ 19‘‘(پروفیسر شاکر خلیق )اور’’ کچلی ہوئی بے چارگی‘‘ (سلطان احمدساحلؔ)نظمیں پر تاثیر ہیں ۔غزلیں پڑھتے ہوئے ان اشعار نے خوب خوب محظوظ کیا :
پتھر وہی تھا پھینکنے والا بھی تھا وہ

سودا اُسی کا اور یہ سر بھی اُسی کا تھا
وہ خود ہی کائنات میں تھا آگہی کا درد

جو درد جھیل لے وہ جگر بھی اُسی کا تھا

(مرتضی اظہر رضوی )
سیاہ شب ہے دیے بھی لہو سے جلتے ہیں

کہ نفرتوں کے چراغوں کی روشنی بھی غلط

(قطب شرسار )
چاند محور سے ہٹا تو کون کس کا آشنا

اب کہاں یوسف سا ہے کوئی زلیخا آشنا

(احسان ثاقب)
’’تمثیل نو‘‘ کے تمام شماروں میں تبصرے کی اچھی خاصی تعداد ہوا کرتی ہے ۔اس سے کتاب دنیا کی سرگرمیوں کا علم ہوتا ہے اور نئی پرانی کتابوں کی معلومات ہو جاتی ہے ۔ ’’نظر اپنی اپنی‘‘ کے تحت ایم نصر اللہ نصر،ڈاکٹر امتیاز وحید، ڈاکٹر مجیر احمد آزاد،شاہد اقبال ، ڈاکٹر احسان عالم ،ڈاکٹر منصور خوشتر ، صفی الرحمن راعین ، معین وقار رحمانی نے کتابوںپر تبصرے میں تعارف وتجزیہ کو اہمیت دی ہے ۔496 صفحات پر محیط یہ ضخیم شمارہ کئی لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے ۔یہ نہ صرف مطالعہ کو مہمیز کرتا ہے بلکہ بحث و مباحثے کے دروازے بھی کھولتا ہے ۔قارئین کے درمیان اسے پسند کی نگاہ سے دیکھا جاناچاہئے۔
٭٭٭
حامد کالونی ،محلہ :فیض اللہ خان ،دربھنگہ-846004(بہار )؛ موبائل :9430898766

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا