ادب کی دنیا کی ایک مشہور شخصیت :شام طالب

0
0

 

 

عبدلقادرکْنڈرییا
محترم شام طالب صاحب جیسی شخصیت اردو زبان ہی نہیں بالکہ ڈوگری اور پنجابی زبان کو فروغ دینے کا نام بھی ہے ۔بے حد محنت اور لگن سے کام کرنا، اپنی محبت کو دوسرں کی جانب کرنا اور دوسرں کی محبت کو دلوں میں خوشبْو کی طرح خوبصورتی سے سجانا شام طالب صاحب کی ایک خاص بات ہے۔ میری پہلی ملاقات محترم جناب شام طالب صاحب کے ساتھ مبارک منڈی انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ میں 1982 ئ؁میں ہوئی اور اِن کے قافلے کے ساتھ ساتھ مْجھے بھی چلنے کا موقع ملا ۔آج بھی ہم اِس قافلے میں ضم ہیں ۔محترم شام طالب صاحب اپنے گھر تلاب تلو سے پیدل چل کر گرمی ہو سردی ہویا پھر برسات ہو بذریعہ کینال روڈ جیول بس سٹینڈ پرانی منڈی سے ہوتے ہوئے انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ مبارک منڈی میںعوام کی اور اپنی خبریں اخبارات میں دینے کیلئے پہنچتے تھے۔ شام طالب صاحب نے اردو ڈوگری پنجابی و دیگر زبانوں کیلئے بے حد جدوجہد کی ہے ۔کبھی یہ نہیں کہا مْجھے کوئی انعام دیا جائے۔ اِس سفر میں شام طالب صاحب کی اور سے اپنا قیمتی وقت نکال کر بے حد محفلیں گْلداں کی طرع سجا کر چار چاند لگانا قابل داد ہے۔ شام طالب صاحب نے انعامات کی ضرورت نا سمجھتے ہوئے صرف اور صرف ادب کی خدمت کرنا زیادہ بہتر سمجھا اور ہر وقت ہر جگہ ادب کی محفلیں سجانے میں پیش پیش رہے ۔یہاں کہا جاتا رہا ہے کہ جناب شام طالب صاحب کی کوئی کتاب رسمِ اْجرا نہیں ہوئی ۔لیکن میں اِس بات سے اتفاق نہیں رکھتا کیونکہ شام طالب صاحب کے کئی ناول غزلیں نظمیں پچھلے 50 سالوں سے انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے لو میگزین میں ،جموں کشمیر ایکیڈمی آف آرٹ کلچر اینڈ لنگویجز کی جانب سے شیرازہ میں، ڈوگری سنستھا کی جانب سے نمی چیتنا میںاور ہندی اردو پنجابی شیرازہ میں کافی تعدد میں غزلیں نظمیں چھپ چْکی ہیں جن کی مثال ایک بہترین غزل ڈوگری شیرازہ میں شائع یہ غزل ہے: غزل
پھّتر دے بھگوان بہتیرے
شیشے دے اِنسان بہتیرے
سْورج دی کرنیں چھا پْچھو
لوئی دے فرمان بہتیرے
طالب دی پنچھان کیہ اوکھی
ایہدے نئے انسان بہتیرے
اِسکے علاوہ جناب شام طالب صاحب کی کثیر تعداد میں غزلیں اورنظمیں اخبارات میں شائع ہوئی ہیں جن کو ہمیں بھی اْس وقت پڑھنے کا موقع ملا اور ہم بھی اِس کا مزہ لیتے تھے ۔شام طالب صاحب ڈوگری سنستھا ،ادبی کْنج، انجمن فروغ اردو اور دیگر تنظیمات قافلے کی روح ہیں جن کی رونک ایک محبتوں بھرے گْلداں میںپیش پیش ہیں ۔جن کی سجاوٹ سے آج بھی پتے ٹہنیاں سبز رنگ کی طرع بکھری ہیں ۔یہ محترم شام طالب صاحب کی محبت کا انعام ہے۔ کون کہتا ہے جناب شام طالب صاحب جیسی شخصیت آج بھی انعامات کی حقدار نہیں ؟چاہئے تو یہ تھا اِن کو تیس سال پہلے یہ حق ملتا مگر جس کی قیادت شام طالب کرتے تھے وہ کافی دیر پہلے انعامات کی فہرست میں شامل ہوئے مگرمحترم جناب شام طالب صاحب نے انعامات نہیں سماج کیلئے ادب کی محفلیں سجانا ہی بہتر سمجھا ۔ضرورت تو اِس بات کی ہے کے ایک ادب کو آگے لینے والی شخصیت گزشتہ پچاس سال سے خدمات کرتا چلا آیا ہے لیکن اس پرکسی کی نظر نہیں پڑی یا جان بھْوج کر انعامات سے نظرانداز کیا گیا ۔اپنے آپ میں یہ ایک سوالیہ نشان ہے؟
نا جانے ایسی شخصیات اور بھی ہوں گی جن کو اِن انعامات کے حق سے نظرانداز کیا گیا ۔اِس تصویر میں لگتا ہے کہ سفارشات بھی رشوت کی طرع پھیل چْکی ہیں جو کسی حقدار کے راسطے میں ایک رکاوٹبن جاتی ہیں۔ ضرورت تو اِس بات کی ہے یہ انعامات اْس کو ادب کی خدمات کے لئے دی جائیں اور اْس وقت دی جائیں جب وہ خود لے سکے اور یہ سمجھے کے میری خدمات آج بھی زندہ ہیں اور میرے مرنے کے بعد بھی زندہ رہیں گی۔ جیسا کے محترم شام طالب صاحب کی زندگی سادگی پر مبنیِ ہے ۔اِن کا یہ سفر اپنے لیے کم اور دوسرں کی خدمات کرنا اولین فرض سمجھتے ہوئے گزرا ۔یہ حق اِن کو ملنا چاہئے تا کہ ادب کی پہچان بنی رہے اور یہ حوصلے تا حیات بلند رہے ۔
محترم جناب شام طالب صاحب کی زندگی ایک مرتبہ پھر واپس اْس وقت آئی جب کرونا وبا کے دور میں دو ماہ کرونا سے لڑتے رہے۔ بیمار ہونے کی وجہ سے بیڈ پر رہے اور خدا نے دوسری بار یہ زندگی بخشی اور پھر سے شام طالب صاحب نے ادب کی محفلوں کو چار چاند لگانا شروع کیا۔ یہ بات بھی یہاں کہنا ہم بھْول نہیں سکتے ایسی زندگی کا کیا بھروسہ کہ کب سانس آئیں اور کب اِس دْنیا سے جانا پڑے ۔اْن سرکاری اداروں کا یہ اولین فرض بنتا ہے جن میں مرکزی ساہتیہ اکیڈیمی دہلی ،کلچرر اکیڈمی جموں و کشمیر ہیں، ایسی شخصیات کی کسی نا کسی طریقے سے امداد فراہم کریں۔جنہوں نے ادب کی منزلیں پار کی ہوں اْنہیں انعامات سے نوازہ جاناچائیے ۔جموں و کشمیر آکیڈیمی آف آرٹ کلچرراینڈ لنگویجز نے کْچھ حد تک اِن کیلئے محفلیں سجانا شروع کی ہیںلیکن یہ اِتنا کافی نہیں ایسی شخصیات کیلئے جنہوں نے ساری زندگی اپنی ادب کی خدمات میں گزار دی ہوں ۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا