ادب اطفال کے آسمان کا ایک اور ستارہ ڈوبا

0
0

حافظؔ کرناٹکی

متین اچل پوری آج کے ادب اطفال کے قافلہ سالاروں میں شامل تھے۔ انہیں ادب اطفال سے فطری مناسبت تھی، اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ وہ فطرتاً معصوم تھے، بچوں والی معصومیت ان کی شخصیت کا لازمہ تھی۔ اس پر سے طرّہ یہ کہ وہ بچوں کے استاد بھی تھے۔ وہ جو کہا جاتا ہے نا کہ جس انسان کی طبیعت کو جس چیز سے مناسبت ہوتی ہے اللہ اسے اسی چیز کا حامل بنادیتا ہے۔ سو متین اچل پوری صاحب کے ساتھ بھی یہی معاملہ تھا۔ وہ بہت باتونی انسان نہیں تھے، عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ بچوں کو پڑھانے والے اساتذہ جب موج میں آکر گفتگو کرنے لگتے ہیں تو اس انداز میں مخاطب سے گفتگو کرتے ہیں گویا ان کے سامنے بچے بیٹھے ہوئے ہیں اور وہ انہیں ایک ایک بات کھول کر سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ لیکن متین اچل پوری کا مزاج اس کے بر عکس تھا۔ وہ کم بولتے تھے اور زیادہ سنتے تھے جو ان کی شخصیت کو نمایاں کرتی تھی۔ سادگی اور انکسار ان کی طبیعت کا جزوتھا۔ وہ اپنے آپ کو کسی بھی محفل میں مصنوعی طریقے سے نمایاں کرنے کی کبھی کوشش نہیں کرتے تھے۔ دراصل بچوں کو اخلاق، شرافت، حلم، اور ادب و احترام کا سبق پڑھاتے پڑھاتے وہ خود اسی طرح کے کردار اور اخلاق کا پیکر بن چکے تھے۔ اسی لیے انہیں دیکھ کر عالم با عمل والا محاورہ یاد آتا تھا۔ طریقہ بھی یہی ہے کہ استاد بچوں کو جیسا بنانا چاہتے ہیں۔یا انہیں جس طرح کی تعلیم دینا چاہتے ہیں پہلے وہ خود اس کی مثال بن جائیں۔ اس کسوٹی پر متین اچل پوری کھرے اترتے تھے۔ میری ان سے زیادہ ملاقاتیں نہیں تھی، اور نہ زیادہ باتیں ہوتی تھی، مگر میں ان کو جتنا جان پایا اس نے میرے ذہن پر ان کا بہت اچھا نقش قائم کیا۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے طے کرلیا تھا کہ اپنی سوویں کتاب ’’باغ اطفال‘‘ کا اجرا انہی کے ہاتھوں سے کراؤں گا۔ کتاب فائینل اسٹیج میں ہے۔ کمپوزنگ اور پروف ریڈنگ کاکام بھی پورا ہوچکا ہے۔ میرا ارادہ تھا کہ دسمبر۲۰۲۲ء؁ میں اس کتاب کی اجرائی تقریب منعقد کروں گا اور متین اچل پوری صاحب کو اجرا کی زحمت دوں گا مگر وہ اللہ کو پیارے ہو گئے، اس لیے ان کی یادوں نے کچھ زیادہ ہی متأثر کیا اور ان کے بچھڑنے کے غم نے کچھ زیادہ ہی ملول کیا۔ ادب اطفال میں یوں بھی ایسے مخلص اور کل وقتی ادیبوں اور شاعروں کی بہت کمی ہے۔ یعنی ادب اطفال کے لیے قربان ہونیوالوں کی تعداد فی زمانہ حسینی لشکر کی طرح بہتّرسے زیادہ کبھی نہیں ہوتی ہے۔ ایسے میں ایک شہسوار کا ہم سے بچھڑجانا ہمارے لیے بے حد افسوسناک ہے۔
متین اچل پوری ہر فن مولا قسم کے شاعر اور ادیب تھے۔ انہیں نظم و نثر دونوں پر قدرت حاصل تھی، وہ نظمیں اور غزلیں لکھتے تھے تو بچوں کے لیے کہانیاں بھی لکھتے تھے۔ جس طرح ان کی شاعری مقصد اور تعلیم و تربیت سے خالی نہیں ہوتی ہیں اسی طرح ان کی کہانیاں بھی بہت سبق آموز اور متأثر کرنے والی ہوتی ہیں۔ ان کی شاعری کی زبان نہایت شستہ، صاف ستھری، آسان اور دلوں پر اثر انداز ہونے والی ہوتی ہے۔ وہ چاہے جس موضوع پر بھی نظمیں لکھیں اس خوب صورتی، مہارت اور ہنر مندی سے لکھتے ہیں کہ نظمیہ شاعری کی زبان بھی مجروح نہیں ہوتی ہے اور سادگی کا دامن بھی نہیں چھوٹتا ہے۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ وہ جس موضوع پر بھی نظم لکھتے تھے اس کے افادی پہلوؤں کو بھی ضائع نہیں ہونے دیتے تھے۔ افادی پہلوؤں کا خیال رکھتے ہوئے ایسی نظمیں لکھنا کہ نظمیہ شاعری کا حسن بر قرار رہے بہت مشکل کام ہوتا ہے۔ کیوں کہ اکثر شعرا افادی پہلوؤں کو اجاگر کرنے کے چکر میں شعریت سے دور جا پڑتے ہیں۔ مگر متین اچل پوری صاحب شعریت اور افادیت میں بہت خوب صورت توازن ہمیشہ قائم رکھتے تھے۔ اور اتنے مزے مزے کی نظمیں اس دلکش انداز میں لکھتے چلے جاتے تھے کہ پڑھنے والا بغیر کسی اکتاہٹ، اور بے کیفی کاشکار ہوئے لطف لے لے کر ان کی نظمیں پڑھتا چلا جاتا تھا۔کچھ مثالیں ملاحظہ فرمائیے؛
درخت راہوں میں جو کھڑے ہیں
مسافرو! قدرداں بڑے ہیں
یہ پیڑ فطرت کے ہم زباں ہیں
یہ پیڑ صدیوں سے میزباں ہیں
(درخت راہوں کے)
تتلی
میں فدا اپنے اس گلاب پہ ہوں
حسن اس کا مجھے لبھاتا ہے
دیکھو میرے گلاب کا جادو
طالب علم میں فدا اپنی اس کتاب پہ ہوں
اس کا ہر لفظ مجھ کو بھاتا ہے
دیکھو میری کتاب کا جادو
کیا خزاں علم پر کبھی آتی ہے
(تتلی اور طالب علم)
تازہ ہوا کی بات نرالی
تازہ ہوا ہے سب کی ضرورت
ہر پل، ہر لمحے ہر صورت
تازہ ہوا کلیوں کو کھلاتی
ہر جانب خوشبو پھیلاتی
خوب ہنر دکھلانے دیجئے
تازہ ہوا کو آنے دیجئے
(تازہ ہوا)
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ان نظموں کی زبان کتنی سادہ اور دل نشیں ہے۔ اور یہ کہ شاعر نے کس ہنر مندی اور فنکارانہ کمال کے ساتھ اپنے موضوع کو برتا ہے۔ اور بغیر کسی ناصحانہ انداز کے بچوں کو پیڑ پودوں کی اہمیت سے آگاہ کردیا ہے۔ انہوں نے ماحولیات کی حفاظت کی تعلیم اپنی نظموں میں کسی استاد یا ناصح کی طرح نہیں بلکہ بچوں کے نبض شناس حکیم کی طرح دی ہے۔ اسی لیے ان کی نظمیں پڑھ کر بچے اپنے آپ یہ بات جان لیتے ہیں کہ پیڑ ہماری زندگی میں کتنی اہمیت رکھتے ہیں۔
دوسری مکالماتی نظم تتلی اور طالب علم کے درمیان مکالمے کی صورت میں آگے بڑھتی ہے اور بچوں کو یہ نصیحت کیے بنا کہ علم اور کتاب کی بڑی اہمیت ہے نہایت خوب صورتی سے متین اچل پوری علم کی اہمیت سے بچوں کو آگاہ کردیتے ہیں۔ اور اس بات کا بھی احساس دلا دیتے ہیں کہ پھولوں کا راجا گلاب چاہے کتنا ہی دلکش اور تازہ اور رنگین اور پیارا کیوں نہ نظر آتا ہو اس کی عمر مختصر ہوتی ہے۔ دھوپ کی شدّت ماحول کی سختی اس کا حسن غارت کردیتا ہے۔ اور وہ سوکھ کر اپنے حسن اور تازگی و کشش سے ہی نہیں اپنے وجود سے بھی محروم ہوجاتا ہے۔ مگر علم کی کھیتی ہمیشہ ہری رہتی ہے۔ علم کا چمن ہمیشہ شاداب رہتا ہے۔ اس پر کسی قسم کی خزاں کا کوئی اثر نہیں ہوتا ہے۔
اسی انداز اور اسلوب کو فطری اور فنکارانہ اسلوب کہا جاتا ہے جس پر متین اچل پوری صاحب کو بدرجہ اتم کمال حاصل تھا، اسی لیے بچے ان کی نظمیں ذوق و شوق سے پڑھتے ہیں۔ اور بڑے بھی ان کی نظموں سے لطف اٹھاتے ہیں۔ تازہ اور صاف ستھری ہوا اور فضا ہماری زندگی کی ضامن ہے۔ ہوا کو صاف رکھنے کے لیے لمبی لمبی تقریروں اور نصیحتوں کا بھی بچوں پر اتنا اثر نہیں ہوتا ہے جتنا اثر ایک مؤثر نظم کا ہوتا ہے اور آپ غور کیجئے گا تو حیرت ہوگی کہ آخری شعر میں متین اچل پوری نے معنیٰ کی کئی تہیں پیدا کردی ہیں۔ تازہ ہوا کو آنے دیجئے سے جہاں تازہ ہوا کی اہمیت کا احساس دلایا گیا ہے وہیں تازہ ہوا کو آنے دیجئے اور خوب ہنر دکھلانے دیجئے میں یہ کنایہ بھی پیدا کردیا ہے کہ تازہ فکر و نظر، نئے علوم و فنون کو آنے دیجئے ان سے گھبرائیے نہیں ۔ جس طرح تازہ ہوا زندگی کے لیے ضروری ہے اسی طرح علم و فکر کے نئے فلسفے بھی زندگی کی ترقی اور صحت کے ضامن ہیں۔ مقصد کو اس طرح کمال ہنرمندی سے شعر کے پردے میں ڈھال کر بچوں کے ذہن کا خوراک بنانا ہر شاعر کے بس کی بات نہیں ہے۔ ایک لمبی تخلیقی ریاضت نے متین اچل پوری صاحب کو اپنے فن میں یکتا بنادیاتھا۔ وہ شعریت اور مقصدیت کی آمیزش کے ہنر سے نہ صرف یہ کہ واقف تھے بلکہ اسے خوب صورتی سے پیش کرنے کا سلیقہ بھی جانتے تھے۔ اور چوں کہ وہ بچوں کے استاد تھے اس لیے بچوں کی نفسیات سے بھی خوب واقف تھے۔ اس لیے ان کو بچوں کو قابو میں رکھنے اور انہیں کھیل کھیل اور تفریح میں سبق پڑھانے میں کوئی دقت نہیں ہوتی تھی۔ وہ اتنے معصوم تھے اور اتنی معصومیت سے بچوں کے ذہن کا مطالعہ کرکے ان کی شوخی اور شرارت کے رمز کو پہچان کر ان کو درس دیتے تھے کہ خود بچوں کو بھی احساس نہیں ہوتا تھا کہ انہیں کچھ پڑھانے یا سکھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس لیے بچے انہیں اپنا دوست اور اپنی ہی جیسی معصومیت کا حامل انسان سمجھتے تھے۔ یہاں یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ بچے جب ایک بار کسی کو اپنا دوست مان لیتے ہیں تو پھر اس کی ہر بات پر عمل کرنے لگتے ہیں۔ یہی بچے جب یہ جان لیتے ہیں کہ فلاں صاحب صرف اور صرف استاد ہیں اور وہ کچھ نہ کچھ سکھانے اور پڑھانے کے بہانے تلاش کرتے رہتے ہیں تو بچے ان سے دور ہو جاتے ہیں۔
متین اچل پوری صاحب میں بچوں کا دوست بن جانے کی حیرت انگیز صلاحیت اور خوبی تھی۔ اسی خوبی نے انہیں ایک طرف ہر دل عزیز اور کامیاب استاد بنایا اور صدر جمہوریہ کے ہاتھوں اعزاز و انعام سے سرفراز کیا تو دوسری طرف اسی خوبی نے انہیں ایک فطری شاعر کے طور پر ادب اطفال میں انہیں متعارف کرایا اور ان کی شاعری اور فنکارانہ صلاحیتوں کا لوگوں کو احساس دلایا۔ ان کی چاہے آپ کوئی بھی نظم پڑھ لیجئے اس میں تصنع اور بناوٹ کی جھلک نظر نہیں آئے گی۔ بس ایسا معلوم ہوگا کہ ایک معصوم انسان اور شاعر ہے جو نہایت معصومیت کے ساتھ اپنے کام میں مصروف ہے وہ بھی اس اخلاص و ایثار اور انہماک کے ساتھ کہ اسے شاعرانہ مکر سے بھی کام لینے کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے؛
آکسیجن! شان تیری خوب ہے
تو ہر اک انسان کی محبوب ہے
لازمی تو سب کے جینے کے لیے
جان کے ہر آبگینے کے لیے
پاتے ہیں سب تجھ میں ممتا کی چھبی
منہ کسی سے بھی نہیں موڑا کبھی
تو نے پوچھی کب کسی سے جات پات
بانٹتی پھرتی ہے تو سب کو حیات
اک ترا ممنون ہر انسان ہے
واقعی! اللہ کی یہ شان ہے
(آکسیجن)
اس نظم میں ایک تو اس سبق پر توجہ مرکوز کی گئی ہے کہ آکسیجن بڑے کام کی چیز ہے۔ اس کے بغیر زندگی محال ہے۔ اور پھر نہایت فطری انداز میں بچوں کو وسیع القلبی کا درس دیتے ہوئے یہ بتایاگیا ہے کہ آکسیجن کسی کی جات پات دیکھ کر اس کی زندگی نہیں بچاتی ہے۔ اس کا جو کام ہے وہ اپنا کام بغیر کسی قسم کے تعصب اور بھید بھاؤ کے انجام دیتی ہے جس کاصاف مطلب ہے کہ انسان کو بھی اپنی خوبیوں اور صلاحیتوں سے بغیر کسی بھید بھاؤ کے سبھوں کو فائدہ پہونچانا چاہیے۔ کیوں کہ جس طرح آکسیجن خدا کی شان کی مظہر ہے اسی طرح ہر انسان کے اندر پائی جانے والی خوبیاں، صلاحیتیں، لیاقتیںاور قابلیتیں اللہ کی ودیعت کردہ ہیں۔ اور زمین پر جتنی مخلوق پائی جاتی ہے سب اللہ کی پیداکی ہوئی ہے اس لیے انسان کو بھی بغیر کسی قسم کے بھید بھاؤ کے اپنی صلاحیتوں سے اللہ کی مخلوق کو فائدہ پہونچاتے رہنا چاہیے۔
معلوم یہ ہوا کہ متین اچل پوری نہ صرف یہ کہ محض ایک استاد اور شاعر تھے بلکہ دین اسلام کی تعلیمات سے آگاہ ایک دین دار انسان بھی تھے۔ اس لیے ان کے سینے میں سارے جہاں کے لیے محبت کا سمندر موجیں مارتا تھا۔ ان کی تقریباً ڈیڑھ درجن کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ اور اچھی بات یہ ہے کہ ان کی کتابیں ادب اطفال کے سرمایہ کا حصّہ سمجھی جاتی ہیں۔ ایسے مخلص ادیب اور شاعر کا بچھڑجانا یقینا ادب اطفال کا بڑا خسارہ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے شاعروں اور ادیبوں کے کاموں اور کارناموں کو نہ صرف یہ کہ سنبھال کر رکھیں بلکہ جہاں تک ممکن ہو سکے انہیں آنیوالی نسلوں تک پہونچانے کی بھی کوشش کریں۔
یہ سچ ہے کہ ہم سبھی کو متین اچل پوری صاحب کے بچھڑجانے کا ملال ہے۔ انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ ان کے جو کام بکھرے پڑے ہیں، ان کی جو کتابیں شائع ہونے سے رہ گئی ہیں۔ ان سب کی حفاظت کی ذمہ داری ہم قبول کریں، انہیں شائع کرانے کا اہتمام کریں۔ ان کے کاموں کو آگے بڑھائیں۔ تا کہ یہ محسوس ہو سکے کہ ہم ایک زندہ قوم اور ایک زندہ جاوید اور ثروت مند زبان و ادب کے وارث ہیں۔ اللہ مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت عطا کرے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا