محی الدین زور کشمیری
جس خاک کے ضمیر میں ہے آتشِ چنار
ممکن نہیں کہ سرد ہو وہ خاکِ ارجمند
(اقبالؒ)
کشمیر روئے زمین پہ ایک ایسا خطہ ہے، جو ہمیشہ سے دوسروں کو اپنی طرف کھینچتا آیا ہے۔ وجہ ہے، اسکی فطری خوبصورتی، جو کہیںبھی کسی دوسری جگہ پہ ہمیں نہیں دیکھنے کو ملتی ہے۔ پچھلے تیس برسوں کی رواں شورش نے یہاں کے باشندوں کو روزخون کے آنسوؤں بہانے پر مجبور کردیا اور پھر یہی آہ وپکار میڈیا والوں کیلئے ایک اہم موضوع بنا اور سیاست کاروں کیلئے منافع بخش کھیتی، البتہ اہل دل والے جہاں کہیں بھی ہیں، وہ ہماری یہ آسمان کو پگھلانے والی چیخیں سنتے رہے۔ اور ہمارے ساتھ کسی حد تک ہمدردی بھی کرتے رہے۔ یہاں یہ بات بھی ضروری کہنی پڑتی ہے کہ کچھ مطلب پرست اور پیشہ ورانہ قلم کار اور فلم ساز بغیر یہاں کے حالات کا جائزہ لئے ہوئے، اس پیچیدہ مسئلے کی ایسی مسخ شدہ تصویر بناتے ہیں، جس سے کشمیر کی تصویر کا ایک ایسا رُخ دکھایاجارہا ہے، جو اسکی اصلی صورت سے کوئی میل ہی نہیں کھاتا ہے۔
معاصر دور میں احمد صغیر( پیدائش ۲۱؍ نومبر ۱۹۶۳ئ) ایک حساس اُردو فکشن نگار کا نام ہے، جن کا تعلق ’’ گیا‘‘ بہار ہندوستان کی سر زمین سے ہے۔ وہ ایک ذرخیز دماغ تخلیق کار ہیں۔ کئی ناول اور افسانوں کے مجموعے سپرد قلم کئے۔ فکشن کی تنقید پر ان کا کام وقیع مانا جاتا ہے، انھوں نے کئی کتابوں کے تراجم بھی کئے اور عام ادبی وغیر ادبی موضوعات پر بھی لکھتے ہیں ۔ منشی پریم چند کی روایت کو آگے لے جاکر اُردو ہندی میں ایک ساتھ طبع آزمائی کرتے ہیں۔کئی انعامت اور اعزازات سے انہیں نوازاگیا۔
احمد صغیر کی خوبی یہ ہے کہ وہ نہ تو علاقائیت میں بند ہے اور نہ وہ مسئلے کی یک رُخی تصویر کو پیش کرتے ہیں، بلکہ وہ مختلف سورس لگا کر پہلے مسئلے کوسمجھتے ہیں اور پھر اس پر بات کرتے ہیں۔ فن اور اپنے موضوع کے ساتھ ایسا برتاؤ کرتے ہیں کہ ان کا ادب پارہ آفاقیت کا حامل ہوجاتا ہے۔ اور وہ بڑے بڑے عالمی مسائل کے ساتھ ساتھ حاشیے میں پڑے ہوئے سماج کے کرداروں کو بھی مرکز میں لاتے ہیں۔ اس لئے دلتوں کو موضوع بنا کر ’’ کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی ہے‘‘ کے عنوان سے اپنا ایک افسانوی مجموعہ ۲۰۱۵ء میں منظر عام پر لایا۔
یوں تو احمد صغیر نے کئی موضوعات پر افسانے اور ناول لکھے، لیکن کشمیر جیسے حساس موضوع پر انہوں نے ابھی تک دو افسانے لکھے، حالانکہ غیر کشمیری رائٹرس دنیا کی مختلف زبانوں میں کشمیر پر صدیوں سے لکھتے آئے ہیں، لیکن جس جرأت مندی سے ۱۹۹۴ء میں احمد صغیر نے اپنا افسانہ ’’ اُداس ہوجانے والا لمحہ‘‘ لکھا، اُس دور میں وہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں تھی۔ کمال کی بات یہ ہے کہ ابھی تک موصوف فکشن نگار نے کشمیر کو نہیں دیکھا ہے! دوم اُس دور میں مسئلہ کشمیر ابھی واضح بھی نہیں ہوا تھا۔ میڈیا تو آج کی طرح عام نہ تھا اور آج عام ہونے کے باوجود بھی ہمیں مناسب کوریج نہیں مل پا رہی ہے، جسکی وجہ سے ہماری چیخیں اور آہ و فغان زیادہ تر پہاڑوں میں گیری ہوئی اس وادی میں ہی دفن ہورہی ہیں۔ مسئلہ کشمیر پر پہلی سنیما اسکوپ بالی ووڈ فلم منی رتنم نے ’’ روجا‘‘۱۹۹۵ء میں بنائی، اسکے بعد ایک یادگار فلم وشال بھردّوجال نے’’ حیدر‘‘ ۲۰۱۴ء میں بنائی۔ اسکے علاوہ بھی بہت کچھ اس مسئلے پر لکھا گیا یا فلمایا گیا، مگر اس میں زیادہ تر حصّہ پروپگنڈہ کے مقصد کے تحت ہی تیار کیا گیا ہے۔ حقیقت کو آٹے میں نمک کے برابر پیش کیا جارہا ہے، البتہ غیر کشمیریوں میں جس رائٹر نے سیاست، تعصب، مذھب، علاقائیت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وغیرہ کو یک طرف چھوڑ کر صرف انسانیت سے متاثر ہوکر مظلوم کا ساتھ دیکر مسئلہ کشمیر سے متعلق چند واقعات کا نفسیاتی تجزیہ کیا، وہ احمد صغیر ہی ہیں، جسکی بین مثال ہمارے پاس انکے زیر نظر دو افسانے ہیں۔
’’ اُداس ہو جانے والا لمحہ‘‘ مختلف رسالوں کے ساتھ ساتھ ان کے افسانوی مجموعے ’’ منڈیر پر بیٹھا پرندہ‘‘ ۱۹۹۵ء میں پہلی بار شائع ہوا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہم عصر فکشن پر تحقیق و تنقید کرنے والوں میں جس نے احمد صغیر کا نام لے لیا انہوں نے زیادہ تر ان کی افسانہ نگاری کو تیکھے طنز (ان دو افسانوں کے حوالے سے) کا نشانہ بنایا، جبکہ یہ دونوں افسانے یہاں ہورہے چند واقعات کا صحیح تجزیہ پیش کرتے ہیں اور فن افسانہ نگاری کی بھی باضابطہ طور پر پاسداری کرتے ہیں۔ اب آئیے ان دونوں افسانوں کے متن کو دیکھتے ہیں:
افسانہ ’’ اُداس ہوجانے والا لمحہ‘‘ شروع ہوتا ہے، جب سکینہ تنہا سرد رات میں اپنے دو معصوم بچوّں( فردو اور بلقیس) کے ساتھ سوئی ہوتی ہے۔ اُسے اپنے شوہر حمید کی سخت یاد آجاتی ہے جو انہیں چھوڑ کر ملیٹنٹ بننے کیلئے چلا گیا تھا۔ سکینہ اپنے شوہر کا عکس اپنے بیٹے میں دیکھ رہی ہے۔ وادی کے حالات بدستور خراب ہیں، ہر طرف خوف و دہشت کا ماحول پھیلا ہوا ہے۔ ان حالات میں سکینہ تنہا جی رہی ہے۔ بچوں پر اپنی پریشانی عیاں تک نہیں کرتی ہے۔ انسانیت یہاں زندہ ہے، حمید کا چاچا مدد کیلئے آتا ہے اور انہیں ڈھارس باندھتا ہے، سکینہ جیسی نیک دل بیوی کوپل پل اپنے شوہر کی یاد ستاتی ہے۔ سرحد کے آرپار سے آنی والی خبروں سے اسکی بے چینی اور بڑھ جاتی ہے۔ اسکی نگاہیں بس حمید کی راہوں کو دیکھ رہی ہیں کہ افسانے کی کہانی فلش بیک میں چلی جاتی ہے۔
جہاں سکینہ اور حمید بڑی خوشگوار زندگی گزارتے ہیں اور اس بیچ میں انکے والد اور انکے دوست کے والد مارے جاتے ہیں۔ اسکے بعد انکا جگری دوست شکور بھی مارا جاتا ہے۔ تو اس سانحہ کے بعد وہ بالآخر سرحد پار عسکری تربیت پانے کیلئے جاتا ہے۔! غرضیکہ وادی میں ایسے حالات پیدا کئے جاتے ہیں کہ جہاں مجبور نوجوان طبقہ بندوق اُٹھانے کیلئے تیار ہوگیا۔سکینہ اب روزانہ معمول کی زندگی بڑی تنگ دستی گزارتی ہے۔ ان کی اس پریشانی کا اثر انکے بچّوں پر بھی پڑ جاتا ہے۔ وہ اپنی ماں کو انکے ابّا کے آنے کے بارے میں سوال پوچھتے ہیں۔ بچّے اسکول جاتے ہیں، تو انہیں ان نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہیں وہاں ایک اور ہمسایہ ایاز رسول بچا لیتا ہے، مگر یہاں مصنف نے اپنے اصل موضوع کو واضح کرتے ہوئے ان معصوم بچّوں اور ایاز رسول کے درمیان جو مکالمہ چھیڑا ہے، اس سے یہ بات صاف عیاں ہوجاتی ہے کہ کشمیر کے ان حالات یا اس تحریک کا براہ راست اثر کیسے نئی نسل پر بھی پڑجاتا ہے۔ ملا حظ فرمائیے، افسانے کا یہ مکالمہ:
’’چاچا، یہ کرفیو کا سلسلہ کب ختم ہوگا؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیٹے یہ تو یہاں کی انتظامیہ، یہاں کی حکومت ہی کو معلوم ہے۔
ایسا کیوں کرتے ہیں یہ لوگ؟
تاکہ کوئی دہشت نہ پھیلائے۔
دہشت کون پھیلاتا ہے؟
ایاز رسول لمحہ بھر کے لئے خاموش ہوجاتا ہے، پھر گویا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔
جواب تک یہاں غلام تھے!
فردو خاموش ہوجاتا ہے۔ کچھ دُور چلنے کے بعد پھر اس کے معصوم ذہن میں ایک سوال اُبھرتا ہے۔
چاچا! لوگ سرحد کے پار کیوں جاتے ہیں؟
اپنی آزادی کا مطالبہ کرنے کیلئے!
تو کیا ہماری آزادی ناقص ہے؟
کچھ لگتا ایسا ہی ہے۔
تو پھر ہمیں بھی سرحد پار جانا پڑے گا ؟ ‘‘
( ص ۴۳)
اس کے بعد ایاز ان بچّوں کو انکے اپنے گھر لے جاتا ہے۔ اس افسانے کا اصل مقصد یا خاتمہ بھی اسی سچویشن پرہوتا ہے، جہاں اس تحریک کو آگے لے جانے کیلئے، ایک اور نسل ذہنی طور پر تیار ہوجاتی ہے۔ مگر مصنف نے اس افسانے کو انتظار پر ختم کیا ہے۔!
افسانہ ’’ اُداس ہوجانے والا لمحہ‘‘ کا اصل موضوع ہے ’’ کشمیر‘‘ میں نوجوانوں کے ملیٹنسی میں شامل ہونے کے وجوہات اور پھر انکے گھر چھوڑنے سے پیدا شدہ صورتحال ہے۔ مگر مصنف نے اس افسانے کا پلاٹ اسطرح تعمیر کیا ہے کہ ایک ساتھ اس مختصر افسانے میں کئی باتیں ہمارے سامنے آجاتی ہیں۔ جہاں مصنف نے اس موضوع کے ساتھ ایسا فنی برتاؤ کیا ہے کہ اس افسانے میں پیش کئے گئے واقعات اور کرداروں کو ہم کشمیر کے تناظر میں ہی نہیں، بلکہ عالمی تناظر میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ جیسے یہاں سب سے زیادہ فوکس سکینہ کے کردار پر کیا گیا ہے۔ اسکی وفا شعاری، ہمت حوصلے اور صبر و استقلال سے ہر کوئی ضرور متاثر ہوسکتا ہے۔ شوہر کے نہ ہوتے ہوئے بھی وہ اپنے بچّوں کی پرورش کرتی ہے اور انکے خیالوں کو ساتھ لئے اپنی زندگی گزارتی ہے۔ یہاں تک کہ افسانے کے اختتام پر بھی اسے اپنے شوہر کا انتظار رہتا ہے۔ ایک عام عورت ہونے کے باوجود بھی وہ اس سارے درد اور بوجھ کو سہہ لیتی ہے۔ یہاں مصنف نے اس کا کردار ایک مثالی عورت کا پیش کیا ہے۔ دیگر کرداروں میں حمید ایک غائبانہ کردار ہے، جس طرح ارتھر ملر کے ڈرامےAll my sons میں لری کا کردار ہے۔ البتہ حمید فلش بیک میں ایک بار اس افسانے میںنمودار ہوتا ہے۔ وہاں پہلے اس کے کردار کے ذریعے سکینہ کا شوہر ہونے کے ناطے جنّسی حس دیا جاتا ہے اور پھر ساتھ ہی انکے دوست شکور کا مارا جانا اس افسانے کو نقطۂ عروج پر لے جاتا ہے۔ پورے افسانے میں اس کی غیرموجودگی کے باوجود بھی وہ چھایا رہتا ہے۔ اس کا کردار اس دور کے عام کشمیری نوجوان کا کردار ہے۔ جو سیلاب کی رو کے ساتھ یکدم بہہ جاتے ہیں۔
دوسرے کرداروں میں چاچا حاجی مرتضیٰ علی اور ایاز رسول دو عام کشمیری کردار پیش کئے گئے، جو کہ پوری ’’ کشمیریات‘‘ کی ترجمانی کرتے ہیں، کیونکہ یہاں ملٹنسی کی وجہ سے حالات خراب ہوں یا کوئی آفات سماوی آئے یا پھر امرناتھ یاترا کا مسئلہ ہو، ایک عام کشمیری ہر کسی اپنے پرائے کو بغیر کسی لالچ کے ضرور کام آتا ہے۔ جسکی ہزاروں زندہ مثالیں ہمارے پاس موجود ہیں۔
شکور اور ان کا باپ یا پھر حمید کا باپ یہ سبھی کردار مظلوم کشمیری ہیں، جنہیں آج بھی بے گناہ مارا جاتا ہے۔ اسی طرح حمید اور سکینہ کے دو معصوم بچّے جو اپنے بزرگ ایاز رسول سے موجودہ حالات کے بارے میں سوالات پوچھتے ہیں اور ان سے نئی نئی باتوں کا بھی مطالبہ بھی کرتے ہیں۔ یہ دراصل یہاں کی ایک نئی نسل کو ظاہر کرتے ہیں، جوان ہی حالات میں پیدا ہوئے اور اسی سیاسی کلچر میں پلے بڑھے اور اب ان سے ہم ایسی ہی باتوں کا توقع کرسکتے ہیں۔!
احمد صغیر کے فن کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے یہ ساری باتیں اس مختصر سے افسانے میں کہی ہیں اوریہاں زیادہ تر اشاروں اور کنایوں سے ہی کام لے لیا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اتنے وسیع موضوع اور اس سنجیدہ Issue کو ہاتھ میں لینے کیلئے ایک وسیع کینواس اور ایک مضبوط پلاٹ کی ضرورت تھی ،اسکے علاوہ مسئلے کو پوری طرح سے سمجھنے کیلئے ریسرچ درکار ہے، فکشن نگاری کے تقاضوں کے پیش نظر اس کلچر یا پس منظر کا مشاہدہ بھی ضروری ہے کہ جس کے بارے میں فکشن پارہ لکھا جائے، مگر ان تمام لوازمات سے موصوف دُور ہی رہے، کیونکہ ان کی اپنی لاکھ مجبوریاں رہیں ہوں گی۔ انھوں نے جو کچھ کیا، وہ قابل صد تحسین ہے۔ احمد صغیر ایک درد مند دل رکھتے ہیں۔ وہ ترقی پسندی، جدیدیت اور مابعد جدیدیت سے بھی پرے سوچتے ہیں۔ وہ مسئلے کو انسانیت اور آفاقیت کے تناظر میں دیکھتے ہیں اور کسی واقعے سے متاثر ہونے کے باوجود بھی اس کو اس طریقے سے پیش کرتے ہیں کہ یہ واقعہ کسی مخصوص قوم یا علاقے کا معلوم نہیں ہوتا ہے، بلکہ یہ عالم انسانیت کا مسئلہ ہمیں لگتا ہے۔ کیونکہ ایک تو سبھی انسانوں کی نفسیات مجموعی طور پر یکسان ہوتی ہے۔ دوّم سیاسی کشیدگی کہاں نہیں ہے۔ دنیا کے چند ممالک کو چھوڑ کر معصوم ہر کہیں مارے جارہے ہیں۔ مسئلہ کشمیر کے بارے میں احمد صغیر نے اپنا دوسرا افسانہ’’ جنگ جاری ہے‘‘ کے عنوان سے ۲۰۰۰ء میں رقم کیا ہے اور اسے بعد میں اپنے افسانوی مجموعے ’’ انّا کو آنے دو‘‘ ۲۰۰۱ء میں شامل کیا۔ حالانکہ ’’ جنگ جاری ہے‘‘ کے عنوان سے ان کا ایک ناول ۲۰۰۲ء میں شائع ہوا۔
’’ جنگ جاری ہے‘‘افسانے کے شروع میں گولی لگنے سے زخمی ایک سپاہی کیچڑ میں لت پت لڑ کھڑا تا ہوا بے یارو مددگار ایک گھر کی جانب بڑھتا ہے، جہاں اُسے ہلکی سی روشنی دکھائی دیتی ہے۔ دروازہ کھٹکھٹانے کے بعد اُس گھر سے ایک نوجوان لڑکی نکلتی ہے، جو انسانیت کے ناطے اُسے اپنے گھر میں پناہ دیتی ہے، جہاں وہ اپنی ماں کے ساتھ رہتی ہے۔ وہ لوگ سپاہی کو نئے کپڑے اور کھانا دیتے ہیں۔ دوونوں ایک دوسرے سے متعارف ہوئے۔ لڑکی کا نام مریم ہے اور ان کا بھائی فوج سے لڑتے لڑتے شہید ہوگیا تھا۔یہ سپاہی بھی اپنے مشن پہ ہے، جنکے چند ساتھی مڈبھیڑ میں مارے گئے اور یہ زخمی ہوا ۔یہاں مصنف نے سپاہی اور مریم کے مابین جو مکالمہ کردیا ہے، وہ دراصل دو الگ الگ نظریات پر مبنی ہے۔ جو دونوں اپنی اپنی جگہ پر صحیح ہوتے ہیں۔ ملاحظ فرمائیے:
’’کیا آپ کا بھائی مجاہد تھا؟
اور آپ؟
میں ایک سپاہی ہوں اور اس خطّے کو ظالموں سے آزاد کرانا چاہتا ہوں۔
کون ظالم ہے، کون مظلوم۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
یہاں مریم پُر اعتماد ہے، اسے پتہ ہے کہ ہمارا خون رائیگان نہیں ہوگا۔‘‘
( ص ۳۲۔۳۱)
سپاہی ان کے گھر میں رات بھر رُکتا ہے۔ مریم سے صبح پھر ان کی بات ہوتی ہے اور مریم پُر عظم اور حوصلہ مند ہیں۔ سپاہی کو اسکی یہ ادا پسند آجاتی ہے اور دونوں میں دیکھتے ہی دیکھتے پیار ہوجاتا ہے اور پھر انکی شادی بھی ہوتی ہے۔ مریم کے حوصلے اسکے کردار اور انکی تحریک کے مستقبل کے بارے میں سپاہی اپنی خود کلامی میں کہتا ہے:
’’ شادی کے بعد سپاہی محسوس کرتا ہے کہ مریم ایک جیتا جاگتا وجود ہے۔ اُس کے اندر بے پناہ پیار ہے، تو بلندیوں کو چھونے کا حوصلہ بھی ہے۔ وہ اگر مرد ہوتی تو ،ہواؤں کا رُخ بدل دیتی۔ باپ اور بھائی کی قربانی کے بعد بھی وہ کہیں سے ٹوٹی دکھائی نہیں دیتی۔ مگر جو جنگ اس علاقہ کے لوگ لڑ رہے ہیں یا جس منزل کے لئے جد وجہد کررہے ہیں ،کیا اس کی صبح ہوگی؟ ‘‘
( ص ۳۵۔۳۴)
دوسری طرف سپاہی خود بھی پُر اعتماد ہے۔
اُسے بھی اپنا فرض بلارہا ہے۔ دراصل ان کے حوصلوں سے انہیں جلا ملی اور انکے اندر کا سپاہی جاگ اُٹھا، اسطرح وہ اپنی بیوی سے رخصت لیکر چلا گیا۔ دن بیتے گئے، وہ واپس نہیں لوٹا ، مریم کے پیٹ میں بچّہ ہے اور اس کا باپ جاتے وقت یہ کہہ کر گیا تھا۔’’جو جدوجہد ہم لوگوں نے شروع کررکھی ہے، اُس کو کمک ملتی رہنی چاہیے‘‘۔
( ص ۳۷)
اسکے ارادے اتنے پختہ ہیں کہ باپ، بھائی اور شوہر کی قربانی کے بعد اب اگر انہیں انکے ہونے والے بچّے کی قربانی بھی دینی پڑے گی، تو وہ بھی نہیں کترائے گی، کیونکہ’’ جنگ تو ابھی جاری ہے۔‘‘!
مذکورہ افسانے کے بارے میں سب سے پہلی بات، جو یہاں کہی جاسکتی ہے، وہ یہ ہے کہ مصنف یہاں جارج برنارڑشا سے متاثر لگتے ہیں۔ کیونکہ انھوں نے Arms and the Man میں یہی کنسپٹ دے دیا ہے۔ جہاں عالمی جنگ میں دشمن کے سپاہی کو اس گھر میں پناہ ملتی ہے، جو کہ ایک آرمی فیملی ہوتی ہے۔ ٹھیک اِسی طرح یہاں بھی احمد صغیر نے عالمی انسانی اقدار کو مدِ نظر رکھ کر اس بات کا ہمیں سبق دے دیا ہے کہ جنگ یا آفات سماوی میں ہمیں یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ ہم کس کو بچالیں گے اور کس کو نہیں، بلکہ بحیثیت انسان ہمیں ہر کسی کو بچا لینا چاہیے، چاہیے وہ ہمارا دشمن ہی کیوں نہ ہو۔ اسی بات کے پیش نظر مریم اُس زخمی سپاہی کو بچا کر اسے اپنے گھر میں پناہ دیتی ہے حالانکہ انکے باپ اور بھائی کو شہید کیا گیا تھا۔ اسکے بعد انسانی خاصکر نسوانی کمزوری یہ بھی ہے کہ دونوں میں ایک دوسرے کے ساتھ پہلے ہمدردی ہوجاتی ہے اور یہی ہمدردی پیار میں بدل جاتی ہے اور پیار کا نقطۂ عروج شادی ہے۔یہ سب کچھ یہاں فطری تقاضوں کے تحت ہوتا ہے، لیکن جب شادی کے بعد بھی مریم کے اندر پک رہے جوش اور جذبے کے اندر کوئی کمی واقعہ نہیں ہوتی ہے، تو آخر کار سپاہی میں بھی ایک نئی قوت پیدا ہوجاتی ہے اور وہ رخصت لیکر چلا جاتا ہے۔ بیوی کے پاس ایک مضبوط آئیڈیالوجی ہوتی ہے، جس نے شاید شوہر کو متاثر بھی کیا یا یہ قاری کی سوچ پر منحصر ہے کہ وہ سپاہی کو کہاں لے جائے گا۔ کیونکہ مصنف نے یہاں قاری کو اسکی سوچ کے مطابق اسے آزاد چھوڑا ہے۔ ۔۔۔۔۔!
اس کے ساتھ ہی یہ افسانہ ایک نئی ٹرن لے لیتا ہے۔ مریم کو اب اپنے پیٹ میں پل رہے بچّے پر نظر ہے، وہ بھی ایک ماں کی ممتا سے بڑھ کر۔ وہ ایک عام ماں ہے نہیں ۔ اسی لئے وہ کہتی ہے:
’’ آنے والا بھی یقیناً ایک ہونہار سپاہی ہوگا!‘‘
اب دیکھئے سچویشن کیا ہے، ایک عام عورت اپنے شوہر کی یادوں میں یا اسکے ساتھ گزارے ہوئے رومانی لمحات کو یاد کرتی ہے، مگر قوم کی اس بہادر بیٹی کو اپنے شوہر کی وہ بات یاد آتی ہے، جب جاتے وقت اُسنے کہا تھا:
’’ جدوجہد ہم لوگوں نے شروع کر رکھی ہے، اُس کو کُمک ملتی رہنی چاہیے‘‘۔
(ص ۳۷)
یہاں لفظ ’’ کُمک‘‘ اس افسانے میں پیش کی گئی آئیڈیالوجی کی پوری ترجمانی کرتا ہے۔ یعنی کُمک بمعنی’’ مدد، حمایت یا وہ فوج جو لڑائی میں بھیجی جائے۔‘‘ اور وہ افسانے کے اختتام پر واضح کرتی ہے کہ ’’ یہ جنگ اتنی جلدی ختم نہیں ہونے والی ہے ۔۔۔۔ میں کتنی خوش قسمت ہوں کہ تین سپاہی اب تک اس جنگ میں بھیج چکی ہوں اور چوتھا میرے پیٹ میں پرورش پارہا ہے۔ اس جنگ میں اس کی بھی ضرورت پڑسکتی ہے‘‘۔ (صفحہ ۳۷) یہ یہاں جذبہ ایثار۔ وطن پرستی کی ایک ایسی مثال پیش کرتا ہے کہ جسکے بارے میں ایک عام آدمی سوچ بھی نہیں سکتا ہے، مگر جن حالات میں ہم کشمیری گذر رہے ہیں وہاں یہ ہمارا روز کا معمول ہے اور مصنف کے قوت مشاہدے کی ہمیںداد دینی ہوگی کہ جنھوں نے اس حساس مسئلے کو کتنی باریک بینی سے سمجھا ہے اور پھر بڑی غیر جانبداری سے اسکے ساتھ ایسا برتاؤ کیا ہے۔!
علی عباس حسینی(لداخ چینا) کرتار سنگھ دگل( دیا بجھ گیا کشمیر پاکستان) یا پھر قدرت اللہ شہاب، رامانند ساگر ۔۔۔۔ جیسے کئی لوگوں نے اپنے فکشن پاروں میں ایسے مسائل کو چھیڑا ہے، مگر وہ سارا انہوں نے جانب داری سے کام لیکر پروپگنڈا کے تحت لٹریچر لکھا ہے، مگر احمد صغیر چاہیے کشمیر کے بارے میں لکھے، ہندوستان کے نکسلیوں کے بارے میں لکھے یا پھر دلتوں کے بارے میں لکھے، ان کا رویہ نہ کسی کی دل آزاری ہوتا ہے اور نہ جذبات کو برانگیختہ کرنے کا ہے، بلکہ وہ حالات واقعات کی تہہ تک پہنچ کرہمیشہ اصل مسئلے کی عکاسی کرتے ہیں۔ حالانکہ وہ اگر چاہتے، تو بھرتی کے تحت اپنے ان دو افسانوں میں مسئلہ کشمیر کے بارے میں کیا کیاکچھ لکھ لیتے، مگر فاضل مصنف نے ہمیشہ ان غیر ضروری باتوں کو چھیڑنے سے اجتناب ہی کیا ہے۔ احمد صغیر افسانے کے کرافٹ سے پوری طرح واقف ہیں۔ وہ کم لفظوں میں زیادہ سے زیادہ باتیںپیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ وہ اپنے افسانے کا پلاٹ چند ہی باتوں یا واقعات پر کھڑا کردیتے ہیں۔ حالانکہ یہ سبھی واقعات موضوع کے اعتبار سے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں، مگر مختلف وحدتوں کا خاص خیال رکھتے ہوئے، انہیں کبھی کبھار ایک واقعے سے دوسرے واقعے تک جمپ کرنا پڑتا ہے اور کبھی فلش بیک یا شعور کی رو تکنیک کا بھی سہارا لینا پڑتا ہے۔
مسئلہ کشمیر یا موضو ع اور ٹکنیک کو یک طرف چھوڑ کر سب سے اہم بات ان دونوں افسانوں کے حوالے سے یہ بھی کہی جاسکتی ہے کہ یہاں مصنف نے جو نسوانی کردار پیش کئے ہیں، وہ پورے اُردو ادب سے ہٹ کر ہیں۔ دونوں کردارباہمت ہیں اور ملیٹنسی جیسی گمبھیر سچویشن کا پورے جوش جذبے، عقل فہم اور ادراک کے ساتھ مقابلہ کرتے ہیں۔ میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اصل تانیثیت تو یہی ہے، جس میں ایک عورت میں ایسی ہمت ہو، جہاں وہ ہر طرح کے حالات کا مقابلہ بڑے اعتماد کے ساتھ کرتی ہے۔ اور سماج میں مرد کے شانہ بہ شانہ اپنا کچھ کنٹربیوٹ کردیتی ہے۔ یا مرد کی غیر موجودگی میں بھی اسکا مشن آگے لے جاتی ہے۔ اپنے آپ کو استحصال ہونے سے بچا سکتی ہے یا احمد صغیر کے ان دونوں افسانوں میں ایک عورت جن حالات میں بُری طرح پھنس جاتی ہے، وہ ان حالات سے مردوں سے بڑھ کر مقابلہ کرجاتی ہے اور نااُمیدی کا سایہ بھی ان تک نہیں پہنچ جاتا ہے۔!
اب آخر پر میں سرف اتنا ہی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کشمیر کی ادبی ثقافتی اور سیاسی تنظیموں کو اپنی اولین ترجیحات میں احمد صغیر جیسے جینون قلم کار اور دانشور کو کشمیر آنے کی دعوت دینی چاہیے، تاکہ وہ یہاں کے مناظر فطرت کے ساتھ ساتھ یہاں کے حالات کا بھی جائزہ لے لیں گے اور پھر انہیں یہاں کا مقامی لٹریچر بھی فراہم کردینا چاہیے، تاکہ لاعنس، ٹنڈل بسکو ،مولوی حشمت اللہ، پرویز دیوان کی طرح موصوف بھی کشمیر کے متعلق کوئی شاہکار کتاب تخلیق کرسکیں گے۔!