آکار پٹیل
۰۰۰۰۰۰۰۰ مظفر نگر اور شاملی میں فسادات کے چار سال بعد بھی اترپردیش کے اس حصے میں بہت سے مسلم خاندانوں کے لیے لفظ” معاوضہ” ایک ظالمانہ مذاق بن گئی ہے۔ستمبر 2013 میں فرقہ وارانہ فسادات کی وجہ سے دسیوں ہزار افراد کے بے گھر ہونے کے ایک ماہ بعد ریاستی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ وہ منتقلی اور بحالی کے لیے ان خاندانوں کو 500,000 روپئے کی ایک بار کی معاوضہ کی رقم فراہم کرے گی۔ تاہم یہ صرف ان نو گاؤں کے خاندانوں کو ملیں گے جن کے بارے میں حکام نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ اس سے سب سے زیادہ ”بدترین طریقے سے متاثر” ہوئے ہیں۔ دسمبر تک اترپردیش کی سماج وادی پارٹی کی حکومت نے بہت سے ریلیف کیمپوں کو منہدم کر دیا تھا، اور بہت سے ان لوگوں کو زبردستی نکال دیا تھا جو فسادات کے دوران اپنے گھروں کو چھوڑ کر بھاک آئے تھے۔ مظفر نگر سے 980 اور شاملی سے 820 خاندانوں نے وعدہ کیے گئے معاوضہ کو حاصل کیا۔ لیکن ان گاؤں میں سے کم از کم 200 خاندان اب بھی انتظار کر رہے ہیں، اور بحالی کالونیوں میں خستہ حالات میں رہ رہے ہیں۔بہت سے معاملات میں ‘فیملی’ کی تعریف معاوضہ کے انکار کا سبب رہی ہے۔ اترپردیش کی ریاستی حکومت نے کہا ہے کہ وہ فیملی کی تعریف اس بنیاد پر کرتی ہے کہ آیا اس کے اراکین ایک ہی باورچی خانے کا استعمال کرتے ہیں یا نہیں؟ (جو ہندوستان کی مردم شماری کے ذریعہ استعمال کیے جانے والے گھرانے کی تعریف کے مشابہ ہے)۔ ضلع مظفر نگر کے چیف ڈویلپمنٹ افسر کا کہنا ہے کہ، ”ایک فیملی یونٹ ایک چھت اور ایک چولہا کے اصول پر مبنی ہے۔ اس کی کئی مختلف حالتیں ہو سکتی ہیں، لیکن اگر کسی گھر میں باورچی خانہ ہے، تو اسے ایک علیحدہ گھرانہ سمجھا جاتا ہے۔” تاہم یہ مقامی حکومت کے اہلکار کی اس تعریف کی تشریح ہے جو بالآخر یہ فیصلہ کرتی ہے کہ آیا کسی خاندان کو کوئی معاوضہ ملے گا یا نہیں؟۔ اور ان اہلکاروں کی فہرستوں نے بہت سے ان خاندانوں کو باہر کر دیا ہے جو کہتے ہیں کہ انھیں معاوضہ دینے سے منع کر دیا گیا اس کے باوجود کہ وہ اس بات کو ثابت کرنے کے قابل ہیں کہ ان کے پتے ان کے رشتہ داروں سے مختلف تھے۔مثال کے طور پر، کاکرا گاؤں کے رہنے والے طاہر کو ریاستی حکام کے ذریعہ معاوضہ دینے سے منع کر دیا گیا۔ حکام نے کہا کہ انھوں نے پہلے ہی’ اس کے والد کو معاوضہ دے دیا تھا، اور اسے اب مزید نہیں ملے گا کیونکہ وہ ایک ہی خاندان سے تھے۔ طاہر کی بیوی عمرانہ نے ہمیں بتایاکہ ”اگر حکومت ہمیں معاوضہ دے دے، تو ہم اپنا گھر بنا سکتے ہیں۔ اگر آپ ہمیں پانچ لاکھ نہیں دے سکتے ہیں تو ہم آپ سے عرض کرتے ہیں کہ ہمیں کم از کم دو یا تین لاکھ ہی دے دیں۔ کم از کم ہم اپنے رہنے کے لیے ایک گھر بنا لیں گے۔ سات لوگوں کے خاندان کو چلانا بہت مشکل ہے، طاہر ہمیشہ کام پانے کی کوشش کرنے کے لیے باہر رہتا ہے تاکہ ہم زندہ رہ سکیں۔ میرے بچے زیادہ تر وقت میں بھوکے رہتے ہیں۔”کم از کم دو معاملات میں، خاندانوں کو اس بنیاد پر معاوضہ دینے سے انکار کر دیا گیا کہ اسے ان کے بوڑھے رشتہ داروں کو پہلے ہی ادا کر دیا گیا ہے جن کی کئی سال پہلے موت ہو چکی ہے۔ 65 سالہ یامین حمید، جو تشدد کی وجہ سے پھوگانہ گاؤں سے بھاگ گیا تھا، اسے اترپردیش حکومت نے اس بنیاد پر منتقلی کا معاوضہ دینے سے منع کر دیا کہ حکام نے اس کے والد حامد کو پہلے ہی منتقلی کا معاوضہ دے دیا تھا۔ جبکہ یامین کے والد حامد کی وفات 1985 میں ہو چکی تھی۔ خاندان نے معاوضہ کا دعوی کرنے کے لیے ان کی موت کے سرٹیفکیٹ کو استعمال کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ ناکام رہے۔ محمد شفیع فسادات کے دوران پھوگانہ گاؤں سے بھاگ گیا تھا۔ اس کو اس بنیاد پر معاوضہ دینے سے انکار کر دیا گیا کہ اس کے والد نے اسے پہلے ہی وصول کر لیا ہے۔ اس کے والد کی وفات 30 سال قبل ہو چکی ہے۔ انسانی حقوق کے محافظ اکرم اختر چودھری کا کہنا ہے کہ ریاست کے بہت سے خاندانوں کو ایک مشترکہ خاندان تسلیم کرنا بہت سے ایسے خاندانوں کو مؤثر طریقے سے نظر انداز کرتا ہے جو معاوضہ کے لیے اہل ہیں۔ وہ پوچھتے ہیں ”آپ مجھے بتائیں، کہ چار بھائی جنھوں نے اپنی زمین، اپنا گھر سمیت ہروہ چیز جس کے وہ مالک تھے ، چھوڑ دیا ہے اور جو شادی شدہ ہیں اور ان کے پاس بچے ہیں، ان سے 500,000 روپئے میں زندگی گزارنے کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟”یہاں تک کہ بہت سے خاندانوں کو ریاست کی طرف سے اس بات کا جواب بھی نہیں ملا ہے کہ انھیں معاوضہ دینے سے کیوں منع کر دیا گیا ہے۔ مسلم خاندانوں نے ہمیں بتایا کہ معاوضہ کے لیے اہل خاندانوں کی شناخت کرنے کے لیے کیے گئے سروے تعصب پر مبنی تھے، کیونکہ انھوں نے اپنے ہندو پڑوسیوں کی گواہیوں پر اعتماد کیا، جن کے بارے میں امکان ہے کہ وہ خود ان فسادات میں شامل رہے ہیں۔ درحقیقت سرکاری حکام کو مناسب طور پر متاثرین کی شناخت کرنے میں ناکامی کی وجہ سے معطل کر دیا گیا ہے۔ لیکن اس کے بعد بھی بہت سے خاندانوں کی درخواستیں بلا جواز ختم ہو جاتی ہیں، اور ان کے حقوق اور وقار سے انکار کر دیا جاتا ہے۔ کچھ خاندان کہتے ہیں کہ مزید وقار حاصل کرنا غیر ممکن سا لگتا ہے۔ جو لوگ بحالی کالونیوں میں قیام کرنے کے لیے مجبور ہیں کہ جن چیزوں کو وہ اپنا حق سمجھتے تھے ،جیسے صاف پینے کا پانی، کام کرنے والے بیت الخلاء، بجلی وغیرہ، وہ اب روزانہ کے چیلنج بن گئے ہیں،منور حسن کالونی میں، پانی کے پمپ سے جو پانی آتا ہے وہ پیلا ہے۔ وسیلہ پوچھتی ہیں، ”براہ مہربانی ہمیں بتائیں کہ ہم اس پانی کو کھانا پکانے اور پینے کے لیے کیسے استعمال کر سکتے ہیں،”۔ فساد متاثرہ خاندانوں کی مناسب رہائش، پانی اور صفائی کے آئینی حقوق صرف کاغذوں پر موجود ہیں۔ اترپردیش اور مرکز کی پچھلی حکومتیں مظفر نگر اور شاملی کے بے گھر خاندانوں کے حقوق کو برقرار رکھنے میں ناکام رہی ہیں۔ فسادات اور ان کے بعد کے حالات کو سمٹ کر صرف ایک سالگرہ نہیں بن جانا چاہئے جسے ہم ہر سال 8 ستمبر کو منائیں۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانے کی اپنی اجتماعی ذمہ داری کو پوری کرنی چاہئے کہ اترپردیش حکومت ان خاندانوں کی زندگیوں کی تعمیر نو میں مدد کرے۔اس لئے آپ حضرات بھی میری اس مہم میں شامل ہوں تاکہ مظلوموں کو انصاف دلایا جاسکے۔ اگر آپ میری اس مہم میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو برائے کرم ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیاکے اس نمبر8881666736پر ایک مس کال نہ صرف آپ دیں بلکہ اپنے احباب سے بھی درخواست کریں تاکہ مظلومین کو انصاف د لایا جاسکے۔وسیلہ،محمد شفیع، یامین حمید ،طاہر اور عمرانہ جیسے متاثرین بھائی بہن آپ سے صرف ایک مس کال کی امید رکھتی ہیں کیا آپ یہ بھی نہیں کرسکتے ۔؟؟؟ (چرخہ فیچرس)