اب کی بار اپوزیشن کی بہار

0
0

 

 

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

پارلیمنٹ کی 543 سیٹوں میں سے 486 پر ووٹ ڈالے جا چکے ہیں۔ چھٹے مرحلے کی ووٹنگ کے بعد جو رجحان سامنے آئے اس سے اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ کس کی حکومت بن سکتی ہے۔ مگر جہاں 97 کروڑ اہل رائے دہندگان ہوں اور 63 کروڑ ای وی ایم کا بٹن دبانے کے لئے اپنے قریبی پولنگ بوتھ پر جاتے ہوں وہاں نتیجوں کی پیشین گوئی کرنا مشکل ہے۔ اسی لئے ماہرین کے درمیان اختلاف ہے۔ آج تک کے الیکشن ایکسپرٹ پردیپ گپتا، یشونت سنہا اور پرشانت کشور کا کہنا ہے کہ 2024 کے نتیجے 2019 جیسے ہوں گے۔ لیکن یوگیندر یادو اور زمین پر الیکشن کور کر رہے صحافیوں کا ماننا ہے کہ بی جے پی اتحاد 200 سے 240 پر سمٹ جائے گا۔ یوگیندر یادو کے مطابق اگر این ڈی اے کا مظاہرہ ساتویں مرحلے میں ٹھیک رہا تو اس کی سیٹیں 250 تک ہو سکتی ہیں۔ کئی ماہرین کا اندازہ بی جے پی کو 180 سے 220 سیٹیں ملنے کا ہے۔ کس کو کتنی سیٹوں پر کامیابی ملے گی یہ تو 4 جون کو معلوم ہوگا۔ یہاں ووٹنگ میں ریاست در ریاست کس جماعت کی کیا صورتحال رہی اور کن سیٹوں پر سخت مقابلہ ہے۔ اس کا ایک اجمالی خاکہ پیش کیا جا رہا ہے تاکہ آپ کو اندازہ ہو سکے کہ 4 جون کو نتائج کیا ہو سکتے ہیں۔
ابھی تک 486 سیٹوں پر ووٹنگ ختم ہو چکی ہے۔ الیکشن کمیشن نے ووٹنگ کا جو ڈیٹا دیا ہے یہ تجزیہ اس کی بنیاد پر ہے۔ بی جے پی نے 2019 میں ان 486 سیٹوں میں سے 278 اور باقی بچی 57 میں سے 25 سیٹیں جیتی تھیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا نریندرمودی ہیٹرک لگائیں گے یا پھر اقتدار کی ریس میں پچھڑ جائیں گے۔ اس سوال کا جواب ان ریاستوں کا جائزہ لینے سے مل سکتا ہے۔ جن میں بڑے بدلاؤ کے آثار نمایاں ہوئے ہیں۔ کرناٹک ان میں سے ایک ہے 2019 میں بی جے پی نے یہاں سے 18 سیٹیں جیتی تھیں۔ اس بار 10 سیٹیں اس کے ہاتھ سے نکل رہی ہیں اور 8 پر اسے سخت ٹکر مل رہی ہے۔ ان میں بنگلور کی چاروں سیٹیں، کولار، چام راج نگر، میسور، مانڈیا، چتر درگا، حاسن شموگا، رائچور، چت کوٹی، بیل گام، بلّاری، توانگری، ہاویری، اوپّل اور گلبرگہ کی سیٹیں شامل ہیں۔ یہاں بی جے پی سنگل ڈیجٹ میں آ سکتی ہے۔ کم و بیش یہی صورتحال مہاراشٹر کی ہے۔ یہاں بھی بڑی تبدیلی یوتی دکھائی دے رہی ہے۔ مہاراشٹر میں بی جے پی کم از کم دس سیٹیں گنوا رہی ہے اور سات پر اس کے لئے مشکل ہے۔ ودربھ کی پانچ میں سے دو سیٹیں پھسل رہی ہیں۔ مراٹھواڑہ کی چار میں سے ہو سکتا ہے ایک بھی نہ ملے۔ شمال مہاراشٹر کی پانچ میں سے چار سیٹیں اس کے ہاتھ سے نکل رہی ہیں۔
مغربی مہاراشٹر کی پانچ میں سے ایک بھی سیٹ ملنے کی امید نہیں ہے۔ تھانے کوکڑ میں سے صرف کلیان کی سیٹ بی جے پی کو مل سکتی ہے۔
ممبئی کی تین میں سے ایک سیٹ پیوش گوئل کی بچے گی یا نہیں یہ کہنا مشکل ہے۔ این ڈی اے کے چار میں سے دو بڑے ساتھی مہاراشٹر کے ہیں ایک ناتھ شندے اور اجیت پوار۔ شندے اپنے بیٹے کی سیٹ جیت لیں تو بڑی کامیابی ہوگی۔ اجیت پوار بارا متی کی سیٹ بھی جیتنے کی حالت میں نہیں ہیں۔
سینئر صحافی پونیہ پرسون واجپئی کے مطابق ملک کی بڑی ریاست اترپردیش بی جے پی کے لئے تجربہ گاہ کے طور پر رہا لیکن وہ ایسے ڈگمگائے گا یہ کسی نے سوچا نہیں ہوگا۔ یہاں وزیراعظم کی زبان لڑ کھڑائی اور انہوں نے جن الفاظ کا استعمال کیا۔ اترپردیش کی سیاست نے ملک کی موجودہ حکومت کو اسی میں نچا سا دیا۔ وزیراعظم نے کیا کہا اور اترپردیش کی تصویر کی کہتی ہے۔ ان دونوں حالات کے بیچ وزیراعظم کے الفاظ تاریخ میں درج ہو گئے۔ "انڈی الائنس اپنے ووٹ بنک کی غلامی کرنی ہے تو کرے ان کو وہاں جا کر مجرہ کرنا ہے تو بھی کرے۔ میں ایس سی، ایس ٹی، او بی سی ریزرویشن کے ساتھ ڈٹ کر کھڑا ہوں، کھڑا رہوں گا جب تک جان ہے لڑتا رہوں گا”۔ مجرہ لفظ کسی کو سمجھ آیا ہو یا نہ آیا ہو لیکن اترپردیش کی سیاست نے سیاسی مجرے کے طور پر اپنے حالات کو کچھ اس طرح سامنے رکھا کہ یہاں کی جو حقیقت ابھر کر سامنے آ رہی ہے اس میں بی جے پی 15 سیٹیں ہار رہی ہے۔ گیارہ سیٹوں پر اسے چیلنج مل رہا ہے۔ دونوں کو ملا دیجئے تو 26 سیٹیں ہوتی ہیں۔ آخری مرحلے میں 13 سیٹوں پر ابھی ووٹنگ باقی ہے۔ 2019 میں بی جے پی نے ان میں سے نو سیٹیں جیتی تھیں۔ کل جیتی ہوئی 62 سیٹوں میں سے نو کم کر دیں تو بچی ہوئی 53 سیٹوں میں سے آدھی پر کھیل ہو سکتا ہے۔
بی جے پی جو ہار رہی ہے یا جن پر اسے چنوتی مل رہی ہے وہ سیٹیں ہیں، مظفر نگر، سہارنپور، کیرانہ، نگینہ، قنوج، اکبر پور، بہرائچ، مچھلی شہر، سلطانپور، امبیڈکر نگر، ڈمریا گنج، بستی، اعظم گڑھ، پھولپور، بریلی، متھرا، جھانسی، ہمیر پور، امیٹھی، فیضآباد، فیروز آباد، بدایوں، مین پوری وغیرہ پوری لسٹ ہے۔ اترپردیش کے بعد بہار آتا ہے جہاں نتیش کمار بی جے پی کے ساتھ ہیں۔ لیکن یہاں بی جے پی کے مطابق ووٹ ٹرانسفر نہیں کی صورتحال پیدا نہیں ہو سکی۔ جس کی وجہ سے این ڈی اے کے ساتھیوں سے بڑا فائدہ بی جے پی کو نہیں ملا۔ بی جے پی کو یہاں چار سیٹ کا نقصان ہو رہا ہے اور نو سیٹوں پر اس کے سامنے چیلنج ہے۔ بہار میں آخری مرحلہ میں آٹھ سیٹوں پر ووٹنگ ہونی ہے۔ ان کو فی الحال اس تجزیہ میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ بی جے پی ہار رہی ہے یا جہاں اسے سخت ٹکر مل رہی ہے ان میں اورنگ آباد، نوادا، سمستی پور، ہوشیار پور، سیوان، کٹیہار، پورنیہ، جہاں ناباد، ارریہ، دربھنگہ، مہاراج گنج، بانکا، جموئی، مشرقی و مغربی چمپارن میں میں بی جے پی کے لئے مشکل حالات ہیں۔ کئی اور سیٹوں پر بھی حالات بدل سکتے ہیں۔ جیسے ہی یہاں سے نکلتے ہیں جھارکھنڈ میں ہزاری باغ کی سیٹ بی جے پی ہار رہی ہے۔ حالانکہ یہ محفوظ سیٹ مانی جاتی رہی ہے۔ یشونت سنہا اور ان کے بیٹے جینت سنہا کا ٹکٹ کٹنے کی وجہ سے باہر ہو گئی۔ اونٹی اور لووردگا کی سیٹ بھی ہاتھ سے نکل رہی ہے۔ راج محل، دمکا اور گوڈا کی سیٹ پر آخری مرحلہ میں ووٹنگ ہوگی۔ 2019 میں راج محل کی سیٹ جے ایم ایم نے جیتی تھی۔
راجستھان کا سب سے بڑا حصہ متاثر ہو رہا ہے۔ یہاں پہلی مرتبہ صورتحال یہ ہے کہ بی جے پی 7 سیٹیں گنوا رہی ہے۔ کیونکہ پانچ سیٹوں پر اسے سخت ٹکر مل رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ کونسی سیٹیں ہیں جہاں بی جے پی کی حالت نازک ہے۔ ان میں دوسہ، کرولی، بھرت پور، چورو، جھنجھونو، جے پور دیہات، بھیل واڑہ، ٹونک، اجمیر، جودھپور اور اودے پور کی سیٹیں ایسی ہیں جنہیں یا تو بی جے پی ہار رہی ہے یا پھر اسے سخت مقابلہ کا سامنا ہے۔ بی جے پی سب سے کم نقصان مدھیہ پردیش میں ہوگا۔ یہاں مانڈلا اور ریوا کی سیٹیں پھنسی ہوئی ہیں۔ دہلی میں چاندنی چوک اور ویسٹ دہلی کی سیٹ انڈیا اتحاد کو مل رہی ہے جبکہ ایسٹ دہلی کی سیٹ پر کانٹے کی ٹکر ہے۔ یہا کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ہریانہ میں بھی بی جے پی کو کئی سیٹیں گنوانا پڑ سکتی ہیں۔ سب سے دلچسپ الیکشن تلنگانہ کا ہے۔ یہاں بی آر ایس ایک بھی سیٹ جیتنے کی حالت میں نہیں ہے۔ اس کا فائدہ بی جے پی کانگریس دونوں کو مل رہا ہے۔ 2019 میں بی جے پی نے چار سیٹیں جیتی تھیں۔ اس مرتبہ وہ چھ یا سات سیٹیں جیت سکتی ہے۔ جبکہ کانگریس کو نو، دس سیٹیں ملنے کی امید ہے۔ اڑیسہ اور مغربی بنگال میں بی جے پی کچھ کھونے اور کچھ پانے کے درمیان کھڑی ہے۔ آندھرا پردیش میں وائی ایس آر کانگریس کی دعویداری زیادہ مضبوط ہے۔ وہاں بی جے پی کا کھاتہ کھلنا مشکل ہے۔
آسام میں تین سیٹ پر بی جے پی کی ہار اور دو پر اس کی حالت کمزور ہے۔ کرناٹک، اترپردیش، مہاراشٹر، جھارکھنڈ، ہریانہ، دہلی، بہار، راجستھان، آسام اور مدھیہ پردیش کی صورتحال کے جائزہ سے معلوم ہوتا ہے کہ 56 سیٹیں بی جے پی ہار رہی ہے اور 44 پر اس کی حالت بہت نازک ہے۔ سو سیٹیں کم ہونے کا مطلب آپ خود سمجھ سکتے ہیں۔ یہاں برابری کے مقابلے والی سیٹوں کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ آخری مرحلہ کی اگر بی جے پی 25 سیٹیں جیت جاتی ہے جو نا ممکن ہے۔ تب بھی این ڈی اے کا 240 سے آگے بڑھنے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ شاید یہی وہ تصویر ہے جس نے نریندرمودی اور بی جے پی کو پریشان کر دیا ہے۔ ان کی بوکھلاہٹ، بے بنیاد، بے تکی باتیں اور زبان کی لڑ کھڑاہٹ بھی ناکامی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ مگر اس سب کے باوجود بی جے پی این ڈی اے سب سے بڑی پارٹی رہے گی۔ وہ ہر چیز اپنے لحاظ سی مینیج کرتی رہی ہے۔ اقتدار میں آنے کی کوشش ضرور کرے گی۔ پہلی جون کے بعد وہ اور زیادہ سر گرم دکھائی دے گی۔ دیکھنا یہ ہے کہ انڈیا اتحاد وفاداری بدلنے کو کیسے روکے گا اور چار جون کے بعد کس کی حکومت بنے گی۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا