اب دیہی لڑکیاں بھی بااختیار ہو رہی ہیں

0
0

 

 

ہیما راول
گنی گاؤں، اتراکھنڈ

کچھ سال پہلے تک، اتراکھنڈ کے دیہات میں لڑکیاں صرف آٹھویں یا زیادہ تر دسویں جماعت تک پڑھتی تھیں۔ جو سوچتی تھی کہ آخروہ پڑھائی کے بعد بھی کیا کر سکتی ہیں؟ آج اسی گاؤں کی لڑکیاں نہ صرف دسویں جماعت سے آگے کالج کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں بلکہ ہر شعبے میں بااختیار بن رہی ہیں۔ حکومت کی فلاحی اسکیموں کے ساتھ ساتھ این جی اوز کی جانب سے بیداری کے حوالے سے کی جارہی کوششوں کی وجہ سے اب صورتحال بدل گئی ہے۔ اب نوعمر لڑکیاں نہ صرف تعلیم حاصل کر رہی ہیں بلکہ اپنے حقوق سے بھی آگاہ ہو رہی ہیں۔اس سلسلے میں باگیشور ضلع کے گروڈ بلاک کے سیلانی گاؤں کی 19 سالہ لڑکی جانکی دوساد کہتی ہیں کہ’’پہلے جب میں پڑھتی تھی تو مجھے بہت سی چیزوں کے بارے میں زیادہ علم نہیں تھا۔ لیکن جب میں نے نوعمر لڑکیوں کو بااختیار بنانے کے لیے کام کرنے والی تنظیم چرخہ میں شمولیت اختیار کی اور ان کی ورکشاپ میں شرکت کی تو مجھے بہت سی چیزوں کے بارے میں معلوم ہوا۔ میں نے نوعمر لڑکیوں کے حقوق اور بااختیار بننے کو سمجھا۔
جس نے مجھے آگے بڑھنے کا راستہ دیا۔ آج میں کالج کر رہی ہوں۔ اب جب میں جا کر لوگوں کے درمیان بات کرتی ہوں تو مجھے کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی۔ میں خود کو اور دوسری لڑکیوں کو بھی بااختیار بنانا چاہتی ہوں۔‘‘اسی گاؤں کی ایک اورنوعمر لڑکی رینو کہتی ہیں کہ ’’شہر کے ساتھ ساتھ گاؤں کی لڑکیاں بھی ترقی کر رہی ہیں۔ وہ بااختیار بن رہی ہے کیونکہ گاؤں میں اچھے اسکول بنائے گئے ہیں، جہاں اساتذہ دستیاب ہیں۔ گاؤں کے لوگ بھی باشعور ہو رہے ہیں اور اب وہ لڑکیوں کو پڑھاتے ہیں۔‘‘ رینو کے الفاظ کو آگے بڑھاتے ہوئے، 16 سالہ ہمانی کہتی ہیں، ’’زندگی میں بہت سی چیزیں ہیں جو میں نے اسکول سے نہیں بلکہ چرخہ تنظیم میں شامل ہونے کے بعد سیکھی ہیں۔ پہلے میں کسی کے سامنے بولنے سے ڈرتی تھی۔ لیکن جب میں چرخہ سنستھا کی ورکشاپ میں آئی تو میں نے اپنی زندگی میں کافی تبدیلی محسوس کی۔‘‘
راولیانہ گاؤں کی ایک نوعمر پوجا گوسوامی کہتی ہیں کہ ’’پہلے میں لوگوں کے سامنے بولنے سے بھی بہت ڈرتی تھی۔ میں اسکول کے مقابلوں میں حصہ لینا چاہتی تھی لیکن میں شرمیاتی تھی ۔ لیکن جب سے میں نے چرخہ جوائن کیا ہے، میرا اعتماد بہت بڑھ گیا ہے۔ اب میں اسکول میں ہر قسم کے مقابلوں میں حصہ لیتی ہوں۔ میں 2023 میں سائنس کانگریس مقابلے میں ریاستی سطح پر پہنچی، جس نے میرے اسکول کی شان بڑھا دی۔ میرے گاؤں کی خواتین نے بھی اس سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ میرا موضوع ’’دیہی خواتین کے لیے ڈیجیٹل صحت کی دیکھ بھال کی اہمیت‘‘ تھا۔ جس میں میں نے اپنے گاؤں کی خواتین کی صحت کی حالت کو پورے اعتماد کے ساتھ سب کے سامنے پیش کیا تھا۔‘‘لمچولا گاؤں کی کویتا آریہ کہتی ہیں کہ ’’تین سال پہلے لڑکیوں کے بارے میں ان کی ماں کی سوچ مختلف تھی۔ لیکن آج ان کی سوچ میں کافی تبدیلی آچکی ہے۔ پہلے وہ مجھے گھر سے باہر نہیں جانے دیتی تھی۔ جب مجھے ماہواری ہوئی تو مجھے گھر سے دور رکھا جاتا تھا۔اب جب میں باہر جا کر سارے کام کرنے لگی تو انہیں اچھا لگا۔ اب وہ مجھے ماہواری کے دوران گھر سے دور نہیں رکھتی اور مجھے کہیں جانے سے نہیں روکتی۔ ‘‘11ویں جماعت میں پڑھنے والی منیشا کہتی ہیں کہ’’جب سے مجھے ہوش آیا، مجھے کھیلنے اور پینٹنگ کا بہت شوق تھا۔ اس میں میرے گھر والوں نے بھی میرا بہت ساتھ دیا۔ حالانکہ شروع میں میں اکیلے گھر سے باہر نکلتے ہوئے بہت ڈرتی تھی ۔ باہر والوں سے بات کرنے میں بہت ہچکچاہٹ محسوس ہوتی تھی۔ لیکن اب میں لوگوں سے پورے اعتماد کے ساتھ بات کرتی ہوں۔ میں اپنے خیالات کا اظہار کرنا جان گئی ہوں۔‘‘
گنی گاؤں کی ایک 36 سالہ خاتون گڈی دیوی کا کہنا ہے کہ ’’پہلے گاؤں کی لڑکیاں بات کرنے سے کتراتی تھیں۔ وہ کھل کر اپنے خیالات کا اظہار نہیں کر پا رہی تھی۔ اگر اس کے ساتھ کچھ غلط ہوا تو وہ کچھ نہیں کہہ سکتی تھی۔ وہ اسکول جاتی ہے اور پڑھتی ہے لیکن اسے کوئی ایسی جگہ نہیں ملی جہاں وہ اپنے خیالات کا اظہار کر سکے۔ لیکن جب گاؤں کی کئی لڑکیاں چرخہ تنظیم میں شامل ہوئیں تو انہیں اپنے حقوق کے بارے میں معلوم ہوا۔ آج وہ اپنے خیالات کا اظہار کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔ اب وہ غلط باتوں کے لیے آواز اٹھاتی ہیں۔ لڑکیوں کے کپڑے پہننے کا طریقہ بدل رہا ہے۔ جہاں پہلے سوٹ اور دوپٹہ پہننا لازمی تھا اب وہ اپنی پسند کے کپڑے پہنتی ہیں۔ کمپیوٹر سیکھنے جاتی ہیں۔ اب لڑکیاں بااختیار ہو رہی ہیں۔‘‘ گانیگاؤں کی گاؤں کی سرپنچ ہیما دیوی کہتی ہیں کہ ’’ماضی اور حال کے درمیان کافی تبدیلی آئی ہے ۔ آج ہر ماں باپ کی خواہش ہے کہ ان کی بیٹیاں تعلیم یافتہ ہو کر اپنے پاؤں پر کھڑی ہوں۔ اب ایک دوسرے کو دیکھ کر گاؤں کے لوگ بھی اپنی بیٹیوں کا کالج تک پڑھنا ضروری سمجھنے لگے ہیں۔ جو لڑکیاں اسکول کے ذریعے کھیلوں کے لیے باہر جانا چاہتی ہیں انہیں بھیجا جاتا ہے۔ اس طرح گاؤں کی لڑکیاں بااختیار ہو رہی ہیں اور بااختیار بننے کی کوشش بھی کر رہی ہیں۔‘‘اس حوالے سے سماجی کارکن نیلم گرانڈی کا کہنا ہے کہ ’’دیہی علاقوں میں بھی نوعمر لڑکیاں اپنی محنت اور لگن سے بااختیار بننے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں۔ انہیں سکول میں مواقع ملنا شروع ہو گئے ہیں۔ جس کا وہ بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ اب وہ ضلع اور ریاستی سطح پر کھیل رہی ہیں اور بااختیار ہو رہی ہیں۔ لیکن دیہی علاقوں میں غربت اور سہولیات کی کمی کی وجہ سے بعض اوقات نوعمر لڑکیاں اپنی منزل تک پہنچنے میں ناکام ہوجاتی ہیں۔ حالانکہ ان میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہے۔‘‘
چرخہ تنظیم کے کام کے بارے میں نیلم کا کہنا ہے کہ تنظیم کی ٹیم گاؤں گاؤں جا کر نوجوان لڑکیوں کو لکھنے کے ہنر کے بارے میں بہت سی معلومات فراہم کرتی ہے جس کی وجہ سے لڑکیاں اس میں کامیاب ہو رہی ہیں اور تحریر کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کرنے لگی ہیں۔آج، گڑوڑا اور کپکوٹ بلاکس کے مختلف گاؤں کی نوعمر لڑکیاں اپنے حقوق کے بارے میں جانتی ہیں۔
وہ بخوبی سمجھنے لگی ہیں کہ ان کے لیے کیا صحیح ہے اور کیا غلط؟ وہ اس سلسلے میں خود فیصلہ لینے کی صلاحیت رکھنے لگی ہیں۔ چرخہ کے دیشا پروجیکٹ سے وابستہ لڑکیاں نہ صرف خود آگاہ ہو رہی ہیں بلکہ اپنے گاؤں کی خواتین اور لڑکیوں کو بھی آگاہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ورکشاپ میں انہیں خواتین اور ان کی ترقی کے بارے میں جو کچھ بھی بتایا جاتا ہے، وہ گاؤں جا کر اس پربات کرتی ہیں۔ جس کی وجہ سے خواتین اور نوعمر لڑکیوں کی خود اعتمادی میں اضافہ ہوا ہے۔ جو ان کے مضبوط اور خود دار ہونے کا ثبوت ہے۔ (چرخہ فیچرس)

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا