۰۰۰
: منصواحمدحقانی، ارریہ
۰۰۰
ابو الحسن علی ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ کے زیر اہتمام چلنے والے دینی وعصری تعلیمی و تربیتی ادارے (1)مدرسہ نور المعاروف دیا گنج ارریہ، (2)مدرسہ روض المعارف عزیز نگر،افریل،پورنیہ اور (3) جامعہ زکریا سید پور کرنکیا، ضلع ارریہ، یہ تینوں معیاری تعلیمی و تربیتی ادارے ارریہ اور پورنیہ کے ایسے بد حال مقامات پر ہیں، جو ہنوز تمدنی ترقیات سے کوسوں دور اورغیر مانوس ہیں، مگر ان اداروں کے روح رواں مولانا کبیر الدین فاران کی تربیت سے معمور مولانا ارشد کبیر خاقان کی علمی صلاحیت اور عملی لیاقت کی بنیاد پر ان کے ذریعہ مذکورہ علاقے میں جوعلمی شمع جلائی جارہی ہیں یقیناً ان کی ضیاء پاشیوں سے تینوں ادارے کے علاقے چمک اٹھے ہیں، تعلیمی بیداری ایسی آئی ہے کہ شوال المکرم کیاوائل ہی میں تینوں ادارے فل ہوجاتے ہیں مجبوراً داخلہ بند کی نوٹس چسپاں دیکھ کر نگاہیں آبدیدہ ہوکر ان تعلیمی ادارے کی جانب ایک حسرت بھری نگاہ ڈال کر سست روی اور بوجھل قدموں سے خواہشمند طلباء اور ان کے سرپرستوں کو کسی اور کی جانب روانہ ہوتا دیکھ ترس آتاہے، انہی تین اداروں کے طلبائے کرام کی تکمیل حفظ قرآن پر دستار بندی کی محفل مدرسہ "روضالمعارف عزیز نگر افریل پورنیہ کے وسیع وعریض،جاذب نظر اور دلکش کیمپس میں سجی تھی اور اس نورانی محفل میں سال رواں کیکل 87 حفاظ کرام کی دستار بندی ہونی تھی۔ چنانچہ 270/حافظ قرآن کے مابین تقسیم اسناد کی تقریب”مدرسہ روض المعارف” عزیز نگر ،افریل پورنیہ میں مولانا حلیم اللہ قاسمی جنرل سیکریٹری جمعیت علماء مہاراشٹر ممبئی کی صدارت، مولانا وہ مفتی خالدحبیب مظاہری کی نظامت، مفتی نظام الدین مظاہری وہ مولانا عبدالوہاب مظاہری کی قیادت، ان تعلیمی ادارے کے روح رواں اور علم نفسیات کے ماہرحضرت مولانا کبیر الدین فاران کی سرپرستی اور ان اداروں کے سرپرست کے چشم وچراغ اور ماہر تعلیم کے بحر بیکراں حضرت مولانا ارشد کبیر خاقان کی نگرانی میں بڑے تزک و احتسام کے ساتھ دو نشستوں میں منعقد ہوچکی تھی، پہلی نشست کا با برکت آغاز محمد شمشیر الہی متعلم مدرسہ روضالمعارف کی تلاوت قرآن سے ہوا جبکہ محمد تنزیل متعلم مدرسہ نور المعارف دیا گنج نے بارگاہ خداوندی میں اس کی بے شمار نعمتوں اور ان گنت احسانات جو ہم انسانوں پر ہیں، عزیزم نے اسے اجاگر کیا اور اللہ کیاحسانات اور اس کی نعمتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ کے حضور حمد باری تعالی پیش کیا۔پھر محمد تنزیل متعلم مدرسہ روضۃ المعارف عزیز نگر افریل پورنیہ نے سامعین کے صاف و شفاف دل کے آئینے میں ایسی ذات پاک کا چہرہ دکھایا یعنی بارگاہ رسالت مآب میں نظرانہ عقیدت کے پھول نچھاور کر کے لوگوں کے دلوں میں آتش محبت رسول کو اور تیز کر دیا۔ نعت نبی کے بعد مدرسہ نور المعارف دیا گنج ارریہ کے دو طالب علموں نے کہنہ مشق مقرر کی طرح اپنی تقریریں سامعین کے سامنے پیش کیں، ایک نے جہیز جیسی لعنت پر لب کشائی کی تو دوسرے طالب علم نے عظمت قران کو سامعین کے سامنے رکھا، جس سے سامعین کے دل خوشی و مسرت سے باغ باغ ہو گئے۔ دوسری نشست کا آغاز بعد نماز عشائ ہوا اور یہ نشست تقسیم اسناد اور تقسیم انعامات پر مختص تھی،اسی کے پیش نظر مولانا ارشد کبیر خاقان مظاہری، مولانا محمد سلیم الدین قاسمی اور پھر تینوں مدارس کے اساتذہ کرام، صدر ابو الحسن ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ اور اسٹیج پر تشریف فرما مہمانانِ ذی وقار کے مبارک ہاتھوں سے 270 حفاظ کرام کے درمیان توصیفی اسناد تقسیم کئے گئے جبکہ 87 حفاظ کرام کے سروں پر دستار یعنی پگڑی سجائی گئی یہ منظر نہایت ہی قابل دید تھا جسے دیکھ کر سامعین کی آنکھیں آپ دیدہ ہو گئیں، کیونکہ حفاظ کرام کی ایسی عظیم الشان تقریب جس میں اتنی بڑی تعداد میں حافظ قرآن ہوں شاید اس سے قبل ارریہ اور پورنیہ سمیت پورے سیمانچل میں منعقد نہیں ہوئی ہو۔ اسٹیج پر تشریف فرما علماء کرام اور مقررین عظام کے خطاب اور بیانات سے قبل ابوالحسن علی ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ کے زیراہتمام تینوں مدرسوں کے طلباء نے اپنی شاندار فنکارانہ صلاحیتوں اور اپنی تعلیمی لیاقتوں کا مظاہرہ کر کے داد تحسین کیں، اس کے مابین محمد توصیف متعلم مدرسہ روضہ المعارف عزیز نگر افریل پورنیہ نے اپنی مسحورکن آواز اور خوبصورت لب ولہجہ میں تلاوت قرآن سے سامعین کی دلوں کو نور سے کانوں میں رس گھول دیا تو وہیں تلاوت شدہ آیتوں کا ترجمہ کرکے محمد علقمہ سلمہ متعلم مدرسہ نور المعارف دیا گنج ارریہ نے اس پر چار چاند لگا دیا اور اللہ کے احسانات پر مبنی حمد باری تعالی محمد فیضان متعلم روضۃ المعارف افریل نے پیش کیا جبکہ نبی کریمکی حضور محمد تنظیم عالم متعلم مدرسہ نور المعارف دیا گنج ارریہ نے نعتوں کا گلدستہ پیش کیا جبکہ محمد ساحل متعلم مدرسہ روض المعارف افریل نے بھی اپنی مترنم آواز میں حمدیہ کلام پیش کرکے داد تحسین حاصل کی اور حافظ سعود الحسن نے بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں نذران عقیدت کے چند پھول نچھاور کرکے پنڈال کو معطر کردیا پھر باری آئی اس جاذب نظر منظر کی جس کے لئے یہ بزم سجی تھی، اسی کے تحت اسٹیج پر جلوہ افروز اکابرین کرام اور مؤقر علمائ عظام کے دستہائے مبارکہ اور مقدسہ سے 87 حفاظ کرام کے سروں پر تکمیل حفظ قرآن کریم کی خوبصورت پگڑی باندھی گئی، جس سے تمام حفاظ کرام سمیت ان کے والدین اورسامعین کی آنکھیں خوشی ومسرت کے آنسوؤں سے نمناک ہوگئیں۔ پھر ان کے ساتھ ماقبل کے سالوں میں ابوالحسن علی ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ کے زیرِ نگرانی مدارس کے 270/حفاظ کرام کو توصیفی اسناد دے کر انہیں اعزاز سے نوازا گیا۔ دستار بندی کے حسین وجمیل اور جاذب نظر منظر کشی کے بعد خطب استقبالیہ پیش کرتے ہوئے مولانا کبیر الدین فاران مظاہری ناظم اعلی مدرسہ قادریہ مسروالا ہماچل پردیش و صدر "ابو الحسن علی ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ” نے کہا کہ یہ جلسہ ہر کسی کا ہے اسی لئے میں نے ایسے مقررین کو بھی دعوت دی ہے، جو چاروں ویدوں کے جاننے والے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ایسی شخصیت بھی مدعو کئے گئے ہیں جو ارریہ ضلع کا مشہور کالی مندر کے مہاراج ہیں جن کو ارریہ سمیت پورا سیمانچل شریماں پنڈت نانوداجی کے نام سے جانتا ہے، آپ نے مزید کہا کہ ہم سب ایک آدم کی اولاد ہیں اور ایک ہی اللہ کے بندے ہیں، ایک رب ہے جس نے پورے سنسار کو پیدا کیا اور اس نے دنیا کے نظام کو چلانے کے واسطیدو شخص کو پیدا کیا جس کو آدم اور حوا کہتے ہیں ہم سب اسی کی اولاد ہیں اس لحاظ سے دنیا میں جتنے بھی انسان ہیں چاہے وہ کسی بھی مذاہب کے ماننے والے ہوں ان سے ہمارا بھائی بھائی کا رشتہ ہے، اور ہم سب ایک ہی خاندان کے فرد ہیں، یہی قرآن کا پیغام ہے جو ساری انسانیت کی ہدایت کے لئے اتری ہے، اور آج کے اجلاس کا مقصد بھی یہی ہے کہ ہم سب بلا تفریق مذہب و ملت ایک دوسرے سے ہمدردی، خیر خواہی اور حسن اخلاق سے پیش آئیں!۔ پھر عالم جلیل مولانا حلیم اللہ قاسمی جنرل سیکریٹری جمعیت علمائ مہاراشٹر ممبئی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ شریعت محمدیہ نے ہمیں رحم اور مہربانی کرنیکی تعلیم دی ہے اور ہرگز یہ نہیں کہا گیا ہے کہ صرف اپنوں کے ساتھ رحم اور عنایت کا معاملہ رواں رکھیں، بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ ہر انسان کے ساتھ رحم اور مہربانی کا معاملہ کریں چاہے وہ کسی بھی مذہب کے ماننے والے ہو یا پھر کسی بھی دھرم پر چلنے والے ہوں بس ہر ایک کے ساتھ ہمدردی خیر خواہی اور حسن سلوک سے پیش آییں، آپ نے قرآن کی ایک آیت کا ترجمہ پیش کیا کہ اگر تم چاہتے ہو کہ آسمان والا تم پر رحم کریے تو تم زمین پر رہنے والے ہر ایک مخلوق پر رحم کرو!۔ مقرر شیریں بیاں حضرت مولانا انعام الحق قاسمی نقشبندی علی پور گجرات خلیفہ پیر طریقت شیخ ذوالفقار احمد نقشبندی نے پرمغز خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اللہ رب العزت نے پوری کائنات میں ہمیں انسان بنایا اور انسان کے چار جوہر ہمیں عطا کئے، اور جس انسان کیاندر یہ چار خوبیاں ہوں گی تو سمجھئے کہ اس انسان میں انسانیت کے جوہر موجود ہے، ان میں سب سے پہلی خوبی "تعلیم وتعلم” ہے اور اللہ نے انسانیت کا جوہر، علم کو قرار دیا ہے، اب جس انسان میں علم ہوگا وہ انسان جوہرانسانیت کی بنیاد پر باکمال انسان ہوگا، انسان کے لئے دوسرا جوہر "اعمال صالحہ”ہے جبکہ تیسرا جوہر خلق حسنہ ہے اور اس کے ذریعہ بھی انسان دنیاوی مفاد اور ناموری کے ساتھ ساتھ اخروی مفاد سے ہمکنار ہوسکتا ہے اور چوتھا جوہر”ہمدردی” ہے۔ اس صفت سے ہی صالح معاشرہ کی تشکیل ممکن ہے۔ جس انسان کے اندر یہ چاروں صفات موجود ہو ں گے ایسے انسان اور آدمی کی اپنے معاشرہ اور سماج میں بڑی قدر ومنزلت ہوگی۔ استاد الاساتذہ مفتی نظام الدین مظاہری نے کہا کہ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہوں نے اپنے بچوں کو کاموں میں نہیں لگا کر ان کو دینی علوم سیکھنے کے لئے مدرسے میں بھیجا اور آج ان بچوں نے قرآن کریم حفظ مکمل کر لیا ہے، جس کی تعظیم میں یہ نورانی مجلس سجائی گئی ہے اور یہ دنیوی اعتبار سے چھوٹا سا تحفہ ہے مگر اس کا اصل انعام تو اللہ رب العزت اس وقت عطا کریں گے جب میدان حشر میں پوری کائنات کی مخلوقات جمع ہون گی اور دنیا کے تمام حافظ قرآن اور ان کے والدین کو بلایا جائے گا پھر ان کے سروں پر ایسے تاج رکھے جائیں گے، جو سورج، چاند اور ستاروں سے بھی زیادہ چمکدار اور روشن ہوگا۔ پھر باری آئی سالانہ رپورٹ کی پیشی کی تو مائک پرجلوہ افروز تھے ابوالحسن علی ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ کے سکریٹری مولانا ارشد کبیر خاقان مظاہری صاحب، رپورٹ مع تعارف کی تکمیل کے بعد آپ نے کہا کہ اسلام دین رحمت ہے، ایک کامل اور مکمل ضابط حیات ہے، جس میں زندگی کے تمام مسائل کا حل موجود ہے، لیکن اس سے مستفیض اور فیضیاب ہونے کیلئے علم کی ضرورت ہے، کیونکہ علم وہ پونجی ہے جس سے اسلام کی دینی، ملی، ثقافتی اور روحانی اثاثہ تک رسائی ہوسکتی ہے، علم کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ محسن انسانیت پر سب سے پہلی وحی نازل ہوئی وہ علم سے متعلق تھی، محسن انسانیت نے مکی زندگی میں تمام تر دشواریوں کے باوجود قرآن کریم کی تعلیم کا انتظام فرمایا ہجرت کے بعد جب مسجد نبویّ کی تعمیر مکمل ہوئی تو اس میں ایک چبوترہ تعلیم و تعلم کیلئے مختص کیا گیا تاکہ صحاب کرام یکسوئی کے ساتھ قرآن وحدیث اور دینی مسائل کے علوم سے مزین ہوسکیں، "صفہ” اسلامی تاریخ کا سب سے پہلا مدرسہ ہے،
مدرسہ نورالمعارف دیاگنج ضلع ارریہ، مدرسہ روضہ المعارف عزیز نگر افریل ضلع پورنیہ، جامعہ زکریا سیدپور کرنکیا ضلع ارریہ اور اس طرح کے ملک میں ہزاروں کی تعداد میں قائم مدرسوں کی نسبت اسی صفہ سے ہے، آپ نے ٹرسٹ کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ ابوالحسن علی ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ ایک دینی، ملی، تعلیمی، تنظیمی، تحریکی اور فلاحی تنظیم ہے، جو ملک و ملت اسلامیہ کی تعمیر و ترقی سماجی و معاشرتی اصلاح، نونہالوں اور آنے والی نسلوں کی دین و ایمان کی حفاظت، دینی تعلیم کے ساتھ عصری علوم سے انہیں آراستہ کرنے کیلئے اس کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ آپ نے یہ بھی کہا کہ ٹرسٹ کے صدر محترم نمون اسلاف حضرت مولانا کبیر الدین فاران صاحب مظاہری دامت برکاتہم کی صدارت و قیادت اور جانفشانی و قربانی سے یہ ادارہ ترقی کی راہ پر گامزن ہے، ان کے علاوہ مفتی انعام الباری قاسمی ناظم مدرسہ تنظیم المسلمین رجوکھر اور مفتی عبدالوارث قاسمی ناظم مدرسہ کنز العلوم گریا نے عظمت قرآن کی مناسبت سے مختصر مگر جامع خطاب فرمایا جبکہ مفتی وقاضی خالد سیف اللہ غازی قاسمی چترویدی مہتمم جامعہ اسلامیہ عربیہ بھوانی پور پورنیہ، پنڈت نانو داجی مہاراج کالی مندر ارریہ، مفتی خالد انور مظاہری پورنوی استاد جامعہ مدنیہ سبل پور پٹنہ، مولانا مجاہد الاسلام قاسمی استاد مدرسہ انوار العلوم اسلام پورنیہ اور مولانا محفوظ عالم مظاہری ایم ڈی سونار، بنگلہ ریزورٹ مالدہ، نے بھی الگ الگ موضوعات پر سامعین کو خطاب کیا۔ اس اجلاس دستار بندی و تقسیم اسناد اور انعامات کو کامیاب بنانے میں مدرسہ روضہ المعارف عزیز نگر افریل، مدرسہ نور المعارف دیا گنج اور جامعہ زکریا سید پور کرنکیا کے اساتذکرام، ملازمین اور متعلمین سمیت اہلیان افریل نے اہم کردار ادا کیا اور دیر رات مولانا ومفتی خالد سیف اللہ چترویدی کی پرمغز دعاء پر یہ نورانی محفل اپنے اختتام کو پہنچی۔