۰۰۰
گلفام بارجی
ہارون سرینگر
۰۰۰
جموں و کشمیر کے ہر ضلع میں کسی نہ کسی شاعر، ادیب، قلم کار، نقاد، گلوکار، اداکار اور فنکار نے جنم لیا ہیاور وہ اپنی فنی صلاحیتوں کی بدولت لوگوں میں مقبول عام ہوگئے۔ کشمیری اور اردو کے علاوہ ڈوگری، پنجابی، گوجری اور پہاڑی زبانوں کے ساتھ ساتھ دیگر کئی زبانوں کے ادیب، قلم کار، نقاد، گلوکار، اداکار اور شاعر اپنی مادری زبانوں کو عالمی سطح تک لیجانے میں کامیاب ہوگئے۔ ان ہی ادیبوں میں شمالی کشمیر کے ضلع بارہمولہ کے بونیار اوڑی میں ترکانجن گاؤں میں خان خاندان میں عبدالقیوم خان نامی ہونہار بچے نے 2جنوری سال 1949 میں جنم لیا اور جس کی پرورش والدین اور دیگر خاندان والوں نے بڑے ہی لاڈ پیار سے کی۔عبدالقیوم خان کو والدین نے جب گاؤں کے ہی ایک مقامی اسکول میں داخلہ کرایا لیکن نہ جانے کیوں عبدالقیوم خان بچپن سے ہی لکھنے کی طرف مائل ہوئے اور مقامی ہائر سیکنڈری میں بارہویں جماعت کا امتحان اچھے نمبرات سے پاس کیا۔ اس وقت عبدالقیوم خان جوانی کے اس موڑ پر تھے جس موڑ پر انہوں نے باظابطہ پہاڑی اور اردو زبان میں شعروشاعری کی دنیا میں مستقل طور قدم رکھا تھا اور عبدالقیوم خان اب راجہ نذر بونیاری کے نام سے جانے جاتے تھے ادبی دنیا میں یہ ان کا قلمی نام تھا۔گورنمنٹ ڈگری کالج بارہمولہ میں سال 1973 میں بی اے کورس میں داخلہ لینے سے قبل راجہ نذر بونیاری ادبی دنیا کی پہچان بن گئے تھے۔ڈگری کالج بارہمولہ سے راجہ نذر بونیاری نے بے اے کا کورس مکمل کرکے کشمیر یونیورسٹی میں داخلہ لیااور وہاں سے ماسٹرز اور بی ایڈ کی ڈگری مکمل کرنے کے بعد محکمہ تعلیم میں بحثیت استاد تعینات ہوئے۔ بحثیت استاد اپنی 43 سالہ خدمات کے دوران راجہ نذر بونیاری نے شمالی کشمیر میں تعلیم کے شعبے کو فروغ دینے میں بیحد تعاون فراہم کیا اور کئی علاقوں میں مختلف عہدوں پر فائز ہوکر اپنی خدمات انجام دئے۔ بونیاری نے DIET میں بھی کام کیا اور سوپور میں بطور ٹیچر ٹرینر کی خدمات انجام دئے۔راجہ نذر بونیارینے جموں و کشمیر بورڈ آف اسکول ایجوکیشن کے ٹیکسٹ بک ایڈوائزری بورڈ میں بھی کام کیا۔سال 2007 میں راجہ نذر بونیاری محکمہ تعلیم سے ہیڈماسٹر کے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔راجہ نذر بونیاری پہاڑی اور اردو زبان کے مصنف بھی رہ چکیہیں انہوں نے ایک درجن سے زائد کتابیں تصنیف کی ہیں اور پہاڑی زبان کے فروغ کیلئے آخری سانس تک کام کیا۔بونیاری نے 14 کتابیں تصنیف کی جن میں پہاڑی زبان میں 6 اور اردو زبان میں 8 کتابیں شامل ہیں۔ راجہ نذر بونیاری ایک ادیب ہی نہیں بلکہ انہوں نے صحافت کے میدان میں بھی اپنا نام روشن کیا۔
سرینگر کے اس وقت کے اخبارات جن میں ہمدرد، ہمارا کشمیر،اور روزنامہ چنار قابل ذکر ہیں میں بھی اپنے قلم کو آزمایا انہوں نے نگینہ کی اشاعتوں کے لئے بھی تعاون کیا۔ سال 1964 میں راجہ نذر بونیاری کی پہلی کتاب (افسانہ) بعنوان "دسرہ آدم "اس وقت کے ریڈیو کشمیر سرینگر اور آج کے آل انڈیا ریڈیو سرینگر سے نشر ہوئی۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اس کتاب کا روسی زبان میں بھی ترجمہ کیا گیا تھا۔ راجہ نذر بونیاری سال 1973 میں
روسی زبان سیکھنے کے لئے روس گئے تھے لیکن وہاں صرف 42 ن رہے اور اپنی والدہ کے بلانے پر واپس گھر آگئے۔
سال 1970 میں روزنامہ چنار میں بونیاری نے بطور ایڈیٹر بھی کام کیا اور اس دوران ان کا ایک اردو مضمون1991 میں شائع ہوا اس کے بعد یہ سلسلہ جاری رہا اور ایک قومی رسالے میں ان کیاردو مضامین شائع ہوتے تھے جنہیں دہلی کے ترقی پسند ادیبوں نے بہت پسند کیا اور خوب سراہا تھا۔ راجہ نذر بونیاری کی اردو کتابوں میں سے ایک اپریل 2020 میں” دل نامہ "کے عنوان سے شائع ہوئی تھی جبکہ پچھلے سال ان کی اردو کتاب شاردا چوٹی”سفر نامہ”کے عنوان سے شائع ہوئی اور اسے دنیا بھر میں سراہا گیا اس کتاب کو بارہمولہ اور سرینگر کے علاوہ نئی دہلی میں ریلیز کیا گیا۔ان کی دیگر کتابوں میں بانج ماں کا بیٹا، یہ کس کی لاش ہے، میرے کفن مائی، نمل، مٹی نیج،لیلا دے بنجارے، سیرت النعمان وغیرہ شامل ہیں۔ادیب اور مصنف ہونے کے علاوہ راجہ نذر بونیاری نے ڈی ڈی کئشیر اور آل انڈیا ریڈیو سرینگر میں اینکر اور گلوکار کے طور پر بھی کام کیا ہے۔اس طرح راجہ نذر بونیاری نے زندگی کی آخری سانس تک اردو بالخصوص پہاڑی زبان کے فروغ اور اس کی اہمیت اور افادیت کے لئے کام کیا اور اپنی زندگی کو پہاڑی زبان کے تحفظ کے لئے وقف کر رکھا تھا۔ پہاڑی زبان کے لئے ان کی بے لوث خدمات کو ہمیشہ یاد کیا جائے گا۔ افسوس پہاڑی اور اردو زبان کے اس مایہ ناز پاسبان نے 20 فروری 2024 کو اس دارفانی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے الوداع کیا(اناللہ واناالیہ راجعون) الل? تعالٰی مرحوم راجہ نذر بونیاری کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے اور لواحقین کے ساتھ ساتھ ان کے مداحوں کو یہ صدمہ عظیم برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین