۰۰۰
ضیاء المصطفی نظامی
جنرل سکریٹری آل انڈیا بزم نظامی
۰۰۰
اللہ کے نام سے شروع جو بہت مہربان رحمت والا۔
سورہ یوسف مکیہ ہے اس میں ایک سوگیارہ (111) آیتیں اوربارہ (12) رکوع اور ایک ہزارچھ سو (1600)کلمے اورسات ہزارایک سوچھیاسٹھ(7166)حروف ہیں۔
بارہویں پارہ کے گیارہویں رکوع سے شروع ہو کر تیرہویں پارے کے چھٹے رکوع تک ہے۔تیرہویں پارہ کا ساتواں رکوع سورہ رعد سے شروع ہوتا ہے۔
سورہ ہود میں سابق انبیاء کا تذکرہ اور واقعات تھے جن سے رسول پاک کے اصحاب کو تسلی دی گئی ہے۔سورہ یوسف میں حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعہ سے تسلی دی گئی ہے اور مخالفین کو مخالفت کے انجام سے آگاہ کیا گیا ہے۔
یہ سورت بھی مکہ کے آخری دورمیں نازل ہوئی جب کہ کفارمکہ حضورنبی کریم کے قتل یا جلاوطنی یا قید کے بارے میں خفیہ تدبیر کررہیتھے۔
سبب نزول:علماء یہود نے اشراف عرب سے کہا تھا کہ حضورسید عالم محمد مصطفے سے دریافت کرو کہ اولاد حضرت یعقوب ملک شام سے مصر میں کس طرح پہنچی اور ان کے وہاں جا کر آباد ہونے کا کیا سبب ہوا اور حضرت یوسف علیہ الصلو والتسلیمات کا واقعہ کیا ہے؟ اس پر یہ سور مبارکہ نازل ہوئی۔کفارِ مکہ نے یہ سوال اس لیے کیا کہ اہل ِعرب بالخصوص مکہ والے اس واقعہ سے ناواقف تھے اور نہ ہی انہوں نے رسول اکرمسے کبھی اس کے بارے میں ذکر سنا تھا، اس لیے انہیں امید تھی کہ آپ اس سوال کا تفصیلی جواب نہیں دے پائیں گے۔ لیکن اس امتحان میں انہیں منہ کی کھانی پڑی، اوررب تعالیٰ نے فوراً یہ پورا واقعہ رسول اکرم کی زبان پر جاری فرمادیابلکہ اس قصہ کو قریش کے اس رویہ پر صاد کر دیا جو وہ برادرانِ یوسف کی طرح آپ سے روا رکھے ہوئے تھے۔(حضرت یوسف کے قصہ کو ’’احسن القصص‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔) حضرت یوسف علیہ السلام کی پیدائش 206 ق م کے لگ بھگ ہوئی اور یہ واقعہ 189 ق م کے قریب پیش آیا۔)’’سورت کی ابتدامیں قرآن کی دعوت کابیان ہے کہ لوگ عقل و فکر سے کام لیں۔اس میں مختلف واقعات اسی لیے ہیں کہ لوگ عبرت اور نصیحت حاصل کریں۔انہی واقعات میں سے یوسف علیہ السلام کا احسن القصص بھی ہے۔
صاحب بحر الحقائق نے کہا کہ اس بیان کا احسن ہونا اس سبب سے ہے کہ یہ قصہ انسان کے احوال کے ساتھ کمال مشابہت رکھتا ہے،اگر یوسف علیہ السلام سے دل کو اور یعقوب علیہ السلام سے روح کو اور راحیل سے نفس کو،برادران یوسف سے قومی حواس کو تعبیر کیا جائے اور تمام قصہ کو انسانوں کے حالات سے مطابقت دی جائے چنانچہ انہوں نے وہ مطابقت بیان بھی کی ہے جو یہاں بنظر اختصار درج نہیں کی جاسکتی۔حضرت یوسف علیہ الصلو والسلام نے خواب دیکھا کہ آسمان سے گیارہ ستارے اترے اور ان کے ساتھ سورج اور چاند بھی ہیں ، ان سب نے آپ کو سجدہ کیا۔ یہ خواب شب جمعہ کو دیکھا، یہ رات شب قدر تھی۔ ستاروں کی تعبیر آپ کے گیارہ بھائی ہیں اور سورج آپ کے والد اور چاند آپ کی والدہ یا خالہ، آپ کی والدہ ماجدہ کا نام راحیل ہے۔ سْدِّی کا قول ہے کہ چونکہ راحیل کا انتقال ہو چکا تھا اس لیے قمر سے آپ کی خالہ مراد ہیں اور سجدہ کرنے سے تواضع کرنا اور مطیع ہونا مراد ہے اور ایک قول یہ ہے کہ حقیقتاً سجدہ ہی مراد ہے کیونکہ اْس زمانہ میں سلام کی طرح سجد تحیت (تعظیمی سجدہ) تھا۔ حضرت یوسف علیہ الصلو والسلام کی عمر شریف اس وقت بارہ سال کی تھی اور سات اور سترہ کے قول بھی آئے ہیں حضرت یعقوب علیہ السلام کو حضرت یوسف علالصلوۃ والسلام سے بہت زیادہ محبت تھی اس لیے ان کے ساتھ ان کے بھائی حسد کرتے تھے اور حضرت یعقوب علیہ السلام اس پر مطلع تھے اس لیے جب حضرت یوسف علیہ الصلو? والسلام نے یہ خواب دیکھا تو حضرت یعقوب علیہ السلام نیان سے فرمایا کہ یہ خواب اپنے بھائیوں سے نہ کہنا ورنہ وہ کوئی فریب یاکیدتیار کر دینگے کیونکہ شیطان صریح دشمن ہے اور اللہ تم کو اپنے احسانات اور انعامات سے نوازے گا، جس طرح ابراہیم علیہ السلام اور اسحاق علیہ السلام کو نوازا تھا۔یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کو ان سے حسد ہوا کہ وہ کیوں اپنے باپ کو زیادہ پیارے ہیں۔پھر ان لوگوں نے ارادہ کیا کہ یا تو ان کو (یوسف علیہ السلام) قتل کر دیا جائے یا کسی دوسرے ملک میں پھینک دیا جائے، ایک بھائی نے کہا کہ ان کو کسی کنویں میں ڈال دیا جائے تاکہ کوئی مسافر اٹھالے جائے۔ایسے مشورے کرنے کے بعد انہوں نے اپنے والد صاحب سے کہا کہ یوسف علیہ السلام کو ہمارے ساتھ کل بھیج دیجئے کہ وہ بھی ہمارے ساتھ بکریاں چرائے اور کھیلے۔یعقوب علیہ السلام نے خوف ظاہر کیا کہ تم لوگ غفلت میں کہیں اسے بھیڑیے کا شکار نہ بنادو۔آخر وہ لوگ یوسف علیہ السلام کو لے گیے اور کنویں میں پھینک دیا اور آکر والد صاحب سے کہا کہ ان کو بھیڑیا کھا گیا ان کا کرتہ لیکر اس پر جانور کاخون لگا دیا۔یعقوب علیہ السلام نے فرمایا کہ تم نے ایک بات بنا دی ہے لیکن اب صبر ہی کرنا ہے اور اللہ ہی سے مدد مانگنی ہے۔وہاں کنویں پر ایک قافلہ آیا جس نے یوسف علیہ السلام کو باہر نکالا اور مصر کے بازار میں فروخت کر دیا۔مصر کے والی نے ان کو اپنے یہاں رکھا اور جب انہوں نے قوت پکڑی تو ان کو اللہ نے حکم اور علم دونوں عطا کیے۔پھر مصر کے والی کی عورت نے ایک مرتبہ ان کو گناہ میں ملوث کرنا چاہا تو وہ کس طرح خوف الہی کے سبب بچ نکلے۔دوبارہ وہ مصر کی حسین عورتوں کے نرغے سے بھی اپنا دامن بچا کر لے گیے۔اس کے بعد تیسری آزمائش یہ ہوئی کہ وہ قید خانے میں ڈالے گیے کہ انہوں نے اس عورت کی خواہش پوری نہ کی تھی۔یوسف علیہ السلام قید خانے میں بھی تبلیغ حق سے غافل نہیں تھے۔دو قیدیوں کو خواب کی تعبیر بتاتے ہوئے بھی آپ نے دل نشین انداز میں توحید کی دعوت دی، ایک کے خواب کی یہ تعبیر بتائی کہ وہ پھانسی پائیگا اور دوسرا شخص بادشاہ کا ساقی بنے گا۔اب بادشاہ کے خواب کی تعبیر کا ذکر ہے کہ وہ شخص جو قید سے چھوٹ کر ساقی بنایا گیا تھا وہ یوسف علیہ السلام سے بادشاہ کے خواب کو بیان کرتا ہے۔یوسف علیہ السلام نے تعبیر بتائی کہ سات سال خوشحالی رہے گی اور بعد میں سات سال تک شدید قحط ہوگا، اس کے بعد پھر خوشحالی کا سال آئیگا۔بادشاہ کو جب یہ تعبیر معلوم ہوئی تو اس نے یوسف علیہ السلام کو بلوایا۔انہوں نے کہلا بھیجا کہ پہلے مجھے قید کرانے کی وجہ بتائی جائے کہ کیا جرم تھا۔بادشاہ نے ان عورتوں سے تحقیقات کی تو سب نے متفقہ طور پر کہا کہ وہ فرشتہ ہیں اور ہم لوگ ہی قصوروار ہیں کہ ہم نے اپنی رسوائیوں پر پردہ رکھنے کے لیے ان کو قید کرایا تھا۔اس کے بعد بادشاہ نے اعزاز و اکرام کے ساتھ ان کو باہر نکلوایا اور ان سے مشورہ چاہا کہ قحط سالی کے دور میں کس طرح مصیبتوں سے بچ سکتے ہیں۔یوسف علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر اقتدار مجھے دیا جائے تو میں وسیع تر ذرائع استعمال کر کے قحط سالی کی مصیبتوں سے بچانے کی کوشش کرونگا۔قرآن بھی یہی کہتا ہے کہ اللہ سے ڈرنے والے اور اس کی مرضی پر چلنے والے کو اس دنیا میں بھی اقتدار حاصل ہوتا ہے اور آخرت میں جو انعامات حاصل ہونگے وہ بہت بہتر ہیں۔اب ذکر ہے کہ قحط سالی کے زمانے میں یوسف علیہ السلام کے سوتیلے بھائی غلہ حاصل کرنے مصر گیے۔ان کے ساتھ بن یامین نہیں تھے جو یوسف علیہ السلام کے ماں جائے سگے بھائی تھے۔یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کو پہچان لیا لیکن وہ لوگ ان کو نہ پہچان سکے۔یوسف علیہ السلام نے ان سے کہا کہ آئندہ آؤ تو بن یامین کو بھی لانا ورنہ غلہ نہیں ملے گا۔وہ لوگ جب یعقوب علیہ السلام کے پاس گیے تو غلہ ملنے کی وہ شرط سنائی۔یعقوب علیہ السلام نے فرمایا کہ کیا میں بن یامین کے متعلق بھی تمہارا اسی طرح اعتبار کرلوں جیسا کہ یوسف علیہ السلام کے بارے میں کیا تھا؟آخر کچھ تامل کے بعد بن یامین کو بھیج دیا گیا۔جب وہ سب مصر پہنچے تو یوسف علیہ السلام نے بن یامین کو اپنے پاس بٹھا لیا اور ان کے کان میں کہہ دیا کہ میں تمہارا وہی گمشدہ بھائی ہوں۔جب وہ لوگ غلہ لیکر چلنے لگے تو یوسف علیہ السلام نے حیلے سے بن یامین کو روک لیا۔اس بات پر وہ لوگ آپس میں مشورہ کرنے لگے اور سب سے بڑے بھائی نے کہا کہ تم لوگوں نے والد صاحب سے وعدہ کیا تھا کہ بن یامین کو صحیح سلامت واپس لے آؤ گے۔ اس سے پہلے تم لوگ یوسف علیہ السلام کے ساتھ کیا سلوک کر چکے ہو۔اور میں تو اب گھر نہیں جاؤں گا جب تک والدمحترم کی اجازت نہ ہو گی۔اور اے اللہ میرے حق میں اچھا فیصلہ کر دے۔ وہ لوگ وطن واپس پہنچے اور والد صاحب سے ساری باتیں کہیں۔یعقوب علیہ السلام کو اس واقعے سے یوسف علیہ السلام کا غم تازہ ہو گیا۔ان کی آنکھیں ڈبڈباگئیں، لیکن انہوں نے ضبط سے کام لیا، اور بیٹوں سے فرمایا کہ تم لوگ پھر جاؤ اور یوسف علیہ السلام اور ان کے بھائی بن یامین کا پتہ لگاؤ اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا۔آخر وہ لوگ پھر پہنچے اور یوسف علیہ السلام سے اپنی پریشانی بیان کی اور کہا کہ ہمارے بھائی کو ہمارے حوالے کر دو اور تھوڑی سی پونجی جو ہمارے پاس ہے، بطور فدیہ پیش کر سکتے ہیں۔یوسف علیہ السلام نے کہا کہ تم نے یوسف علیہ السلام اور اس کے بھائی کے ساتھ اپنی جہالت کی وجہ سے کیا سلوک کیا ہے؟اب وہ لوگ یوسف علیہ السلام کو پہچان گیے۔ یوسف علیہ السلام نے فرمایا کہ بے شک میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے اور اللہ، تقویٰ، صبر اور عمل صالح کا اجر ضائع نہیں کرتا۔وہ لوگ ندامت کے ساتھ اپنی خطا کا اعتراف کرنے لگے۔یوسف علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’آج تم پر کوئی گرفت نہیں‘‘۔ اللہ تمہیں معاف کرے۔ یوسف علیہ السلام نے سب کو معاف کر دیا اور اپنی قمیص دی کہ والد صاحب کے چہرے پر ڈال دینا تو ان کی بینائی واپس آجائیگی، پھر سارے کنبے کو میرے پاس لے آنا۔ادھر یہ ہوا کہ جب یوسف علیہ السلام کا قافلہ مصر سے چلا تو یعقوب علیہ السلام نے لوگوں سے فرمایا کہ مجھے یوسف علیہ السلام کی خوشبو آرہی ہے۔چنانچہ جب وہ لوگ گھر پہنچے اور یوسف علیہ السلام کی قمیص اپنے والد کے چہرے پر ڈالی تو ان کی بینائی عود کر آئی۔پھر ان لوگوں نے ان سے معافی چاہی۔اور جب یہ سارا کنبہ مصر پہنچا تو یوسف علیہ السلام نے اپنے والد صاحب کو اپنے ساتھ تخت پر بٹھایا۔ سارے بھائیوں نے جھک کر تعظیم کی۔اس وقت یوسف علیہ السلام نے یعقوب علیہ السلام سے کہا کہ یہ سب ہے اس خواب کی تعبیر جو میں نے شروع میں آپ سے عرض کیا تھا۔پھرانہوں نے والد صاحب کو تمام واقعات سنائے اوررب تعالیٰ کے تمام انعامات اور ہدایات کا ذکر بھی کیا اور دعا کی کہ ’’(اے میرے پروردگار) تو ہی دنیا اور آخرت میں میرا حامی ہے۔میرا خاتمہ اسلام پر کر دے اور صالحین کے ساتھ مجھے ملا‘‘۔
سور الرعد:سورہ رعد مکیہ ہے اور ایک روایت حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنما سے یہ ہے کہ دو آیتوں کے سوا باقی سب مکی ہیں، اور دوسرا قول یہ ہے کہ یہ سور? مدنی ہے۔(کنزالایمان)
اس میں تینتالیس(43) یاپینتالیس(45)آیتیں اورچھ (6) رکوع اور آٹھ سو پچپن(855) کلمے اور تین ہزار پانچ سو چھ(3506)حروف ہیں۔ یہ تیرہویں پارہ کے ساتویں رکوع سے شروع ہو کر بارہویں رکوع تک جاتی ہے۔اس سورت کا نام، آیت 13 کے فقرہ ’’یسبح الرعد بحمدہ‘‘ کے لفظ ’’الرعد‘‘ سے لیا گیا ہے۔(یعنی یہ نہیں کہ اس سورت میں بادل کے گرج کے کسی مسئلہ پر بحث ہے)۔یہ بھی مکی دور کے آخر کی سورت ہے۔اس سورت میں توحید، آخرت اور رسالت کی حقانیت کا بیان ہے اور اس بیان کا مقصد صرف دماغوں کا اطمینان ہی نہیں، دلوں کو ایمان کی طرف کھینچنا بھی ہے۔سورت میں ٹھہر ٹھہر کر ترغیب، ترہیب اور تلقین سے کام لیا گیا ہے اور مخالفین کے اعتراضات کے جوابات بھی دیئے گیے ہیں۔’’آغاز میں بتایا ہے کہ یہ قرآن حق ہے اور آسمانوں اور زمین میں کتنی نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں جن سے اللہ کو پہچانا جا سکتا ہے۔اور اللہ پاک کبھی کسی قوم کی حالت نہیں بدلا کرتا جب تک وہ خود بھی اپنی حالت کو نہ بدلے۔بجلی، ابر، رعد، کڑک وغیرہ سب سے اللہ کی پہچان ہو سکتی ہے۔اللہ ہی کو پکارنا چاہئے۔ آپسے پہلے بھی کافروں نے رسولوں کا مذاق اڑایا تھا تو اللہ نے کچھ دنوں تو ڈھیل دی، لیکن پھر بری طرح ان کو پکڑا۔
ًا اور اس کے بعد والی آیت کے۔ اس سورت میں سات(7) رکوع باون(52)آیتیں آٹھ سو اکسٹھ(861) کلمے،تین ہزار چار سو چونتیس(3534)حروف ہیں۔تیرہویں پارہ کے تیرہویں رکوع سے شروع ہو کر 19 ویں رکوع تک جاتی ہے۔سورت کا نام آیت 35 کے فقرے، ’’واذقال ابراہیم رب اجعل ھذا البلداٰمنا‘‘ سے لیاگیا ہے (یعنی محض علامت کے طور پر نام ہے، مطلب یہ نہیں کہ اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت پاک یا سوانح عمری بیان ہوئی ہے) انداز بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ قیام مکہ کے آخری دور میں نازل ہوئی جب مکہ والوں کا مسلمانوں پر ظلم و ستم انتہا کو پہنچ چکا تھا اور اہل مکہ گزشتہ کافر قوموں کی طرح ایمان والوں کو شہر سے نکالنے پر تل گیے تھے۔اس سورت میں مخالفین کو فہمائش اور تنبیہہ کی گئی ہے اور پہلے انبیائ کے واقعات کی روشنی میں پرخلوص زندگی گزارنے اور حق کی مخالفت نہ کرنے کا سبق دیا گیا ہے نیز انہیں اللہ کے غضب سے ڈرایا گیا ہے۔
فرعون کی قوم موسیٰ علیہ السلام کی قوم کو سخت تکلیفیں پہنچاتی تھی۔ ان کے بیٹوں کو قتل کرتی تھی اور عورتوں کو زندہ چھوڑتی تھی۔رب تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی قوم کو ان سے چھڑایا۔اللہ زیادہ دیتا ہے ان کو جو شکر کرتے ہیں لیکن جوناشکری کرتے ہیں ان کے لیے شدید عذاب ہے۔اگلی امتوں نے اپنے رسولوں کے ساتھ کیا سلوک کیا اور ان رسولوں نے کس طرح صبر و ہمت کے ساتھ تبلیغ کاکام کیا۔نافرمان قوموں نے اپنے رسولوں کو دھمکی دی کہ ان کو نکال دیا جائے گا۔ورنہ وہ کافروں کے دین کو قبول کریں۔پھر اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایسی قوموں کو تباہ کر دیا اور ان کی جگہ دوسروں کو آباد کیا۔ اب ابراہیم علیہ السلام کی دعا آتی ہے کہ مکہ معظمہ کو امان والا شہر بنا دے،مجھے اور میرے بیٹوں کو بتوں کی پوجا سے بچا، میری کچھ اولاد ایسی وادی میں رہتی ہے جہاں کھیتی نہیں ہوتی اور وہ تیرے حرم کے پاس ہے۔وہ نماز قائم رکھیں اور لوگوں کے دل ان کی طرف مائل ہوں اور انہیں کچھ پھل کھانے کو دے۔