بابر نفیس
ڈوڈہ، جموں
جہاں ایک طرف سے یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ تمام گورنمنٹ سکولوں میں مختلف طرح کی بنیادی سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔جن کے باعث غریب اور نادار بچے کسی بھی ذہنی دباؤ کے تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔مگر وجہ کیاں بنی کی گورنمنٹ سکولوں میں طلباء وکی تعداد کثیر ہونے کے بجائے دن بدن ناقص ہوتی جا رہی ہے؟گورنمنٹ سکولوں میں جو دعوے کیے جا رہے ہیں کیا وہ بنیادی سہولیات وقتی طور پر دستیاب ہوتی ہیں یا نہیں؟ مفت وردی، مفت کتابیں اور کئی طرح کی بنیادی سہولیات کے جو دعوی کئے جاتے ہیں ان کو کس طرح سے گورمنٹ اسکول میں فراہم کیا جاتا ہے؟لیکن یہاں یہ بات واضح کرنا انتہائی اہم ہیں کہ اکثر ضلع ڈوڈہ کے مختلف مقامات سے یہ شکایت موصول ہوتی ہیں کہ گورنمنٹ سکولوں کی حالت انتہائی خستہ حال ہے۔سکولوں کی حالت خستہ حال ہونے کے ساتھ ساتھ تعلیمی نظام میں بھی کئی طرح کی کوتاہی برتی جا رہی ہیں۔آخر ان کمیوں کا ذمہ دار کون ہے؟ اگرچہ ان سکولوں میں تعلیمی نظام کو بہتر نہیں کیا جاتا ہے تو غریب عوام کا نقصان کیوں کیا جا رہا ہے؟اس سلسلے میں ہم نے کئی مقامی شخصیات کے ساتھ ساتھ سماجی کارکنان کے ساتھ بھی بات کران وجوہات کو جاننے کی کوشش کی۔اس سلسلے میں جب ہم نے ایک مقامی شخص محمد سجاد سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ ضلع ڈوڈہ کے پہاڑی علاقوں میں گورنمنٹ سکولوں کی حالت انتہائی خستہ حال ہے۔اس کی وجہ سے لوگ اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے سے قاصر ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ہر سال بچے سکول جاتے ہیں لیکن اسکول میں تبدیلیاں دیکھنے کو نہیں ملتی۔خستہ حال سکول میں بچوں کے مستقبل کو بہتر کرنے کی بات کی جاتی ہے تو کسی حد تک یہ باتیں لوگوں میں بہت کم اثر کرتی ہیں۔اگرچہ کئی مقامات پر’اسکول چلو‘کے نعرے بھی دیے گئے لیکن ان نعروں میں کس طرح کی بہتری دیکھنے کو نہیں ملتی ہے۔ آنے والے وقت میں بھی شائد ہی ایسی کوئی تبدیلی دیکھنے کو ملے گی۔ایسے میں حکومت کو چاہیے کہ وہ سکولوں کی حالت کو بہتر کرے اور بچوں کو مضبوطی سے مستقبل کی اور رونما کیا جا سکے۔
ان کے علاوہ جب ہم نے سماجی کارکنان آسف اقبال بٹ سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ ضلع ڈوڈہ میں اسکولوں کی حالت خستہ حال ہونے کے ساتھ ساتھ سکولوں میں کئی طرح کی بنیادی کمیاں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر ضلع میں بہترین سکول ہوتے تو شاید یہ نوبت نہیں آتی کہ استاد وں کو بچوں کے گھر جاکر انہیں دعوت نامہ پیش کرنا پڑتا۔اس کی وجہ یہی ہے کہ جو مطالبات انتظامیہ کی جانب سے پیش کیے جاتے ہیں ان کو پورا کرنے میں انتظامیہ کی حد تک قاصر رہتی ہے۔جبکہ سکولوں میں بیگ، کتابیں اور مختلف طرح کی بنیادی سہولیات کو لے کر انتظامیہ اعلان کرتی ہے۔ انہیں مفت کتابیں، کاپیاں اور ڈریس فراہم کرنے کی کرتی ہے۔ لیکن کئی بار یہ صرف اعلان ہی رہ جاتا ہے اوربچوں کو وقت پر فراہم نہیں ہوتا ہے۔ایسے میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا یہ زمینی سطح پر بچوں تک فراہم بھی کی جاتی ہیں یا صرف فائلوں میں ہی اس کا ذکر ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وقت پر کتابیں اور وردی وغیرہ فراہم نہ کرنا ایک بچے کے مستقبل کے ساتھ سراسر کھلواڑ ہے۔اس سلسلے میں جب ہم نے مقامی انسیہ بانو سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ دور دراز علاقہ جات میں سکولوں کی حالت کا نفاذ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انتظامیہ نے جس طرح کا رویہ اختیار کیا ہے وہ قابل قبول نہیں ہے۔ جبکہ تعلیمی نظام کو لیکر کی طرح کی سکیمیں سامنے آتی رہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ آخران نظام کو بہتر کیوں نہیں کیا جاتا ہے جن کے لیے لاکھوں روپے کے فنڈز واہگزار کی جاتی ہیں؟ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتایا کہ گورنمنٹ سکولوں میں جس طرح بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے ان سے شاید لوگ نا خوش ہیں تب ہی جاکر لوگوں نے بچوں کو اسکول جانے میں کمی کی۔
اس سلسلے میں بلاک ترقیاتی کونسلرفاطمہ فاروق سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ کئی مرتبہ اس موضوع پر ہم نے کونسل میں بات کی ہے۔ جس میں تعلیمی نظام کو لیکر بہترین عمارتیں قائم کرنے کا فیصلہ لیا۔ ہر سال کروڑوں کی فنڑس واہ گزار کی جاتی ہیں۔ لیکن زمینی سطح پر اسے استعمال نہیں کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آنے والے وقت میں ہم ایک ٹیم تشکیل دیں گے جب بھی کوئی فرینڈ واہ گزار کی جائے اس کا دھیان رکھا جائے گا اور اسے مکمل طور پر زمینی سطح پر لاگو کیا جائے گا۔اس سلسلے میں ضلع ترقیاتی کونسلر مہراج دین ملک کہتے ہیں کہ واقعتا ضلع ڈوڈہ کے پہاڑی علاقوں میں لوگوں کو گمان ہوگیا ہے کہ گورنمنٹ سکولوں میں تعلیم بہتر نہیں ہے جبکہ حقیقت میں تعلیم بہتر ہے مگر تعلیمی نظام کے لیے جو بلڈنگ بنائی جانی چاہیے تھی وہ بلڈنگ نہیں بنائی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ خستہ حال عمارت میں تعلیم حاصل کر رہے بچوں کے والدین شدید تشویش میں ہیں کہ کہیں بچوں کے جانی نقصان کا خطرہ نہ بن جائے۔انہوں نے کہا کہ ضلع ترقیاتی کمشنر کو چاہیے کہ وہ تمام سکولوں کی ایک فہرست تیار کرے جس میں یہ صاف ظاہر ہو کہ کتنے سکولوں میں بلڈنگوں کی خستہ حالت ہے اور کتنے سکولوں میں استادوں کی قلت ہے تاکہ ان کو لے کر سوچ ویچار کیا جائے تاکہ لوگوں کو مشکلات سے دوچار نہ ہونا پڑے۔وہیں ان تمام موضوعات کو ضلع ترقیاتی کمشنر ڈوڈہ وشیش مہاجن کے سامنے رکھ کر ان سے غور و فکر کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے بتایا کہ میں اس پر خاص نہیں بول سکتا۔لیکن میں آپ کو یقین دہانی کراتا ہوں کہ میں خوداس معاملے کو دیکھونگا۔ اسکولوں کی حالت بہتر ہو گی اور طلباء و کی تعلیم کو لے کر مختلف طرح کی بہترین اقدامات ہوگے۔اب آنے والے وقت میں یہ ضرور دیکھنے والی بات ہوگی کہ کیا ضلع ڈوڈہ میں تعلیمی نظام کو بہتر کیا جائے گا یا نہیں؟ (چرخہ فیچرس)