آج ہم مسلمان دین سے دُور اور دنیا میں سب سے پیچھے رہ گئے ہیں!

0
0

 

 

 

قیصر محمود عراقی

جس قدر زمانہ آگے جارہا ہے ہم ذہنی طور پر پیچھے کی طرف لوٹ رہے ہیں۔آج ہم صرف مسلمان اس لئے ہیں کہ ہم مسلمانوں کے گھروں میں پیدا ہوئے اور ہمارے والدین نے ہمارے نام مسلمانوں جیسے رکھ دیئے ہیں۔ ہم مسلمان ضرور ہیں لیکن شعوری طور پر ہم نے کبھی اسلام کو دل سے قبول نہیں کیا، جہاں تک ہمیں اسلام گوارا ہوتا ہے اس کے ساتھ چلتے ہیں اور جہاں دل اور دماغ کسی اور راستے کی طرف لگاتے ہیں تو قرآن وسنت ہر چیز کو بھول کر اس طرف چل نکلتے ہیں۔ اپنی منافقت پر پردہ ڈالنے کیلئے قرآن اور سنت سے دلیلیں ڈھونڈتے ہیں، دلیل نہیں ملتی تو گڑھ لیتے ہیں، اسلام کو گالی دینے کی جرأت نہیں رکھتے اس لئے اسلام کے نام لیوائوں کو گالیاں دیکر ، تضحیک اور تمسخرانہ نشانہ بناکر ، انہیں رجعت پسند قراردیکر ، خود کو روشن خیال اور لبرل کا خطاب دیکر دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں۔ مسلمانوں کی اکثریت کیلئے اسلام اب میلاد کی چند محفلوں ، مرنے پر جنازوں اور قلوں ( وہ بھی مدرسے سے کرائے پر طالب علموں کو بلاکر) اور نکاح کے موقع پر مولوی صاحب کی طرف سے دو بول پڑھانے تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ اس سے آگے اور پیچھے، دائیں اور بائیں اسلام کو کسی مداخلت کی اجازت نہیں، سیاست میں نہ تجارت میں ، معیشت میں نہ معاشرت میں ، بول چال میں نہ اٹھنے بیٹھنے میں ۔ پھر دین کے نام پر تاجروں نے جنت بیچنے ، گناہ بخشوانے ، جہنم سے چھٹکارے اور دنیا میں وارے نیارے ہونے کیلئے دکانیں سجارکھی ہیں ، جہاں دین کے نام پر توہمات ، بدعات ، جہالت اور بے دینی کے درس ملتے ہیںاور وہ بھی نقد ادائیگی پر ۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم مسلمان ہیں تو صرف تو صرف اسلام کا نام بدنام کرنے کیلئے وگرنہ وہ کون سا اعمال اور اشغال ہیں جنہیں دیکھ کر کسی غیر مسلم کو اسلام کی طرف راغب ہونے کی توفیق ہو۔
قارئین حضرات! آج ہم مسلمان دین سے دور اور دنیا میں سب سے پیچھے رہ گئے ہیں۔ دنیا میں اس لئے پیچھے رہ گئے ہیں کہ ہمارا کوئی لائحہ عمل نہیں ، تعلیم کے طرف رجحان نہیں ، ایک بھیڑ کی مانند جس کے پاس دولت ہے اس کے پیچھے چل دیئے اب چاہے وہ دولت مند ہو یا سیاستداں ، چاہیں کتنا ہی برا کیوں نہ ہو ۔ہم میں سے اکثر لوگ تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے تو بدحال ہیں ہی مگر کچھ تعلیم یافتہ حضرات تعلیم ہونے کے باوجود بھی چاپلوس والی زندگی گذارتے ہیں، ان کی اُن کی چمچہ گری لگے رہتے ہیںحالانکہ اس سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ اسی طرح ہم دین سے اس لئے دور ہوگئے ہیں کہ ہم نے قرآن مجید کو طاقوں پر سجارکھا ہے، کبھی اسے کھول کر پڑھنا گوارا نہیں کیااور احادیث کسی مسلمان کے گھرمیں تو کیا کسی مسجد میں بھی شاید مل جائے کیوں کہ مسجدوں میں قرآن کے پاروں کی تو انبار مل جائیگی جسے کوئی کبھی پڑھتا ہی نہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے علماء ومشائخ بھی نہیں چاہتے کہ امت کا ہر فرد ہدیث کو پڑھے اور قرآن مجید کو پڑھ کر سمجھنے کی کوشش کرے کیوں کہ انہیں یہ خدشہ رہتا ہے کہ اگر امت قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھنے لگے گی تو ہم نے کہاں کہاں ڈنڈی ماری ہے اور کس طرح لوگوں کو بے وقوف بناکر اپنے گروپ میں شامل کیا ہے ان سب سے راز کھل جائیگا اور ہمارے کھانے پینے کے لالے پڑجائینگے۔ آج جب ہم چاروں طرف نظر دوڑاتے ہیں اور اپنے معاشرے پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم کسی بھی دنیاوی معاملے میں ایک دوسرے کے خلاف لوگوں کو نہیں پاتے، نہ شادی بیاہ کے موقع پر نہ فوتگی کے موقع پر ، شادی ہو یا فوفگی یا پھر کوئی اور معاملہ ہم ایک مسلمان بن کر ایک دوسرے کے کام آتے ہیں، ایک دوسرے کی خیریت دریافت کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی مصیبتوں میں معاون ومددگاربھی ہوتے ہیں لیکن جب نماز پڑھنے کی بات آتی ہے تو اپنی اپنی مسلک کی مسجدیں تلاش کرنے لگتے ہیں۔ آخر ہم مسلمان جب تن من دھن سے ایک دوسرے پر پڑنے والی مصیبتوں میں ایک دوسرے کے لئے ایک صف میں کھڑے ہوجاتے ہیں تو پھر رب کی رضا کیلئے مسجدوں میں ایک ہی صف میں کھڑے کیوں نہیں ہوتے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ آج کے دور کے یہ مسلکی اور جاہل مفاد پرست علما ہیں جنہوں نے دین سے متعلق وہ ساری باتیں جو ہمارے نبی پاک ؐ نے ہمیں بتائی ہیں اسے نہ بتا کر اپنے اپنے مسلک اور گڑھے ہوئے دین کی باتیں بتاکر ہمیں ایک دوسرے کے خلاف کردیا ہے۔ آج ہم ایک دوسرے کو کافر اور مشرک گردانتے ہیں۔
قارئین حضرات! میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ آخر دو کلمہ گو ایک دوسرے کو کافر کہتا ہے اور مشرک کہتا ہے تو پھر ہندوستان میں تقریباً ہزاروں مسجدیں ہیں سوائے دو فیصد مساجد کو چھوڑ کر اکثر یت جس مسالک کی مسجدیں ہیں ان تمام مساجد میں نماز پڑھانے والا امام کافر اور مشرت ہے تو یہ نادان امت، یہ جاہل اور ان پڑھ امت، نماز کس کے پیچھے پڑھے؟ کیا کافر امام کے پیچھے یا مشرک امام کے پیچھے؟ جب کہ کافر اور مشرک کی نماز ہی نہیں ہوگی تو نماز پڑھنے والی مقتدی کی کہاںسے نماز ہوجائیگی اور ایسے میں لاکھوں روپئے خرچ کرکے عالیشان مساجد بنانے کی ضرورت کیا ہے؟ آج جتنا پرچار مسلک کا کیا جاتا ہے اتنا پرچاراسلام کا نہیں کیا جاتا، مبلغ بے شمار ہیںلیکن دین کے نہیں بلکہ مسلک کے ، اپنے اپنے بزرگوں کے قصیدے پڑھتے ہیں ، ان کے نام پر من گھڑت قصے بناکر امت کو سناتے ہیں اور گمراہ کرتے ہیںاور امت بھی ان کی چکنی چپڑی باتوں میں آکر ان کی پھیلائی ہوئی جال میں پھنس جاتے ہیں اور پھر وہی کرتے ہیں جیسا یہ کہتے ہیں۔ جانے کب امت بیدار ہوگی اور کب ان مسلکی مولویوں کے چہرے مسلکی خول اترینگے؟ شاید ایسا کبھی نہ ہو کیوں کہ امت کا ہر فرد آج کل اس قدر مصروف ہوگیا ہے کہ اس کے پاس وقت ہی نہیں ہے کہ کبھی قرآن حدیث کو کھول کر دیکھے اور پڑھ کر سمجھنے کی کوشش کرے کہ اللہ اور اللہ کے رسولؐ نے ہمیں کیا حکم دیا ہے اور ہم ان مسلکی مولویوں کے بہکاوے میں آکر کیا عمل کررہے ہیں۔
اللہ نے اپنے محبوب کو جن باتوں کوامت میں پہنچانے کا حکم دیا انہوں نے مکمل حق کے ساتھ امت کو بتادیا، جہاں ڈرنے کی بات تھی وہاں ڈرایا اور جہاں خوشخبری دینی تھی وہاں خوشخبری سنائی، مگر یہ آج کل کے علما اگر ان پر انگشت نمائی کی جائے یا کسی اور معاملے میں ان پر لعن طعن کی جائے تو امت کو یہ کہہ کر ڈراتے ہیں کہ علما انبیا کے وارث ہوتے ہیں، نائب رسولؐ ہوتے ہیں، امام کی اہانت کرنا گویا رسولؐ کی اہانت کرنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ انبیا وراثت میں دولت اور زمین چھوڑ کر نہیں جاتے اسی طرح ہمارے پیارے نبی ؐ نے بھی کوئی جائیدار ان مکار علمائوں کے لئے نہیں چھوڑا بلکہ اپنی وراثت میں انہوں نے قرآن وحدیث کو چھوڑا ہے۔ اب جبکہ یہ علما قرآن وحدیث کی جو باتیں ہیں وہ اگر سچ سچ بتاتے تو یہ انبیا کے وارث کہلاتے یا نائب رسولؐ کہلاتے لیکن ان لوگوں نے تو قرآن وحدیث کو چھوڑدیا اور اپنے اپنے بزرگوں کی کتابیں اٹھالی ہیںاور اسی میں سے امت کو بتاتے ہیںکہ یہ غلط ہے اور یہ صحیح ہے، اور امت بھی اتنی بیوقوف کہ کہتی ہے کہ علما غلط تھوڑی بتائینگے۔ اب امت کو کون سمجھائے کہ یہ علماانسان ہیں، خطا کا پتلا ہیںکوئی آسمان سے آئے ہوئے فرشتے نہیں ہیں۔ اگر امت قرآن پڑھتی تو جانتی کہ اللہ تعالیٰ سب سے پہلے جہنم میں ان ہی علمائے سوکو ڈالے گا، کیوں ڈالے گا کیوں کہ ان علمائے سو اور مسلکی مولویوں نے دین کو خلط ملط کرکے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے جس وجہ کر ہم مسلمان آج ان ہی مسلکی مولویوں کے بتائے ہوئے راستے پر گامزن ہے۔ آج ہماری نماز ، ہمارا روزہ ،حج ، زکوۃ، لباس یہاں تک کہ سر کی ٹوپی سب کے سب مسلکی ہوگئے ہیں، آج شادی بیاہ میں بھی مسلکی لڑکا اور لڑکی کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ الغرض آج ہر مسلمان کا سر سے لیکر پائوں تک سب کچھ نبیؐ کی سنت پر نہیں بلکہ مسلکی مولویوں کے پھیلائے ہوئے مسلک پر ہے اگر نہیں ہے تو وہ صرف پیسہ ہے، جی ہاں پیسے کے معاملے میں مسلک کی کوئی قید نہیں، چاہے پیسہ مسجد اور مدرسہ میں جو بھی دے ، جس بھی مسلک کا دے وہ ان مسلکی مولویوں کو قبول ہے۔ اب تو چاند کا نکلنا بھی مسلک کے دائرے میں آچکا ہے، بکرے ذبح کرنا بھی مسلکی ہوّابن چکا ہے، جس طرح سے دو مولوی میں مرغے حرام بالکل اسی طرح سے آج دو مسلکوں میں ذبیحہ حرام ہوگیا ہے، کہا جاتا ہے کہ اہل کتاب کا ذبیحہ حلال ہے مگر دوسرے مسلک کا کیا ہوا ذبیحہ حلال نہیں بلکہ حرام ہے۔
قارئین حضرات! کن کن باتوں کا رونا رویا جائے ، ان علمائوں سے کچھ نہیں ہوگا، یہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ ہم ایک ہوںکیوں کہ اگر ہم ایک ہوگئے تو ان کے سارے ارمان فوت ہوجائینگے۔ اس لئے اب ہم مسلمانوں کو خود ہی بیدار ہونا ہوگا، مسلکی خول سے باہر نکلنا ہوگا، ایک خدا کے احکام کو ماننا ہوگا، ایک نبیؐ کی شریعت پر عمل کرنا ہوگا اور ایک قرآن کی تعلیمات پر چلنا ہوگا۔ جب تک ہم مسلک کی اس دیوار کو نہیں گرائینگے تب تک ہم دین کے قریب نہ پہنچ سکتے ہیںاور نہ دین کو سمجھ سکتے ہیں اگر دین کو سمجھنا ہے اور دین پر چلنا ہے تو اس مسلکی دیوار کو ان جاہل ، مفادپرست اور مسلکی مولویوں سے بے خوف بے خطر ہوکر گرانا ہوگا۔ ان کے فتوئوں سے ڈرنے کی ضرورت نہیںبلکہ جو مولوی فتوے سے ڈرائے آپ اس مولوی کو اپنے اپنے علاقے کی مسجد سے نکال کر باہر کا راستہ دکھائیں جب تک یہ قدم نہیں اٹھائینگے یہ ہمیں اللہ سے کم اور اپنے فتوئوں سے زیادہ ڈراتے رہینگے اور اگر ہم ڈر گئے تو پھر ان کی دنیا چاندی ہی چاندی ہے بھلے ہی آخرت خراب ہوجائے۔ لیکن ہمارا اور آپ کا یعنی دونوں کا دنیا بھی خراب اور آخرت بھی خراب ہوگی۔
پتہ:کریگ اسٹریٹ،کمرہٹی،کولکاتا۔۵۸
موبائل:6291697668
۰۰۰

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا