آج اردو بولنے والا طبقہ کہاں کھڑا ہے؟‘‘

0
0

 

 

 

قیصر محمود عراقی

آج جب میں اپنے والدہ مرحوم اور اس زمانے کے بڑوں کی ذہنیت کے بارے میں سوچتا اور پھر آج کچھ اردو بولنے والے طبقے کو اپنے ملک کے دیگر شہروں میں دیکھتا ہوں تو رونا آتا ہے۔ کسی سلسلے وار طریقے سے پڑھے لکھے طبقے کو تباہ کیا جارہا ہے، نسل اس طرح تباہ وبرباد ہوگی یہ کبھی تصوربھی نہیں کیا تھا، ایک وقت وہ تھاسیاست یا کسی اور مسئلے پر گفتگو جاری ہوتی تو بڑوں کی عمر کا خیال رکھتے ہوئے اخلاق کا دامن نہیں چھوڑتے تھے، اس زمانے میں ماں باپ بھی سب کچھ نظر انداز کرسکتے تھے مگر بد تمیزی اور اخلاق سے گری ہوئی بات برداشت نہیں کیا کرتے تھے۔ آج اسی طبقے کا بیشتر نوجوان مائوں اور بہنوں کی موجودگی میں غلیظ زبان اور وہ الفاظ استعمال کرتا ہے کہ اگر ماں باپ کے سامنے استعمال کی جائے تو وہ کبھی معاف نہ کریں۔
اردو بولنے والے نفیس ، شریف النفس اور تعلیم یافتہ طبقے کے ساتھ پچھلے چند برسوں میں ایسا کھیل کھیلا گیا کہ آج جن کے باپ دادا کا اثاثہ تہذیب ، خاندانی روایات، اخلاقیات اور تعلیم ہوتا تھا ان کی نئی نسل کے پاس صرف یہی چیزیں ناپید ہیں۔ تعلیم جن قوم کا زیور تھا، آج ان کی نسل کے نام نہاد رہنماانہیں یہ تعلیم دیتے ہیں کہ اگر تم کو کوئی چیز بچا سکتی ہے تو وہ اسلحہ ہے۔ آج نہایت کی دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اب اس نسل کے پاس تعلیم ہے نہ اخلاقیات ، ہتھیار اٹھاکر چلنے کو وہ سیاست اور تحریک سمجھتے ہیں ، کس مقصد کی تحریک ، کیا اس کی منزل ہے ، کچھ پتا نہیں، باپ دادا کی کیا قربانیاں تھی، کچھ معلوم نہیں، مگر لیڈروں کی سالگرہ کب ہے؟ نہیں بھولتے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ مار دھار ، ٹکرائو، بداخلاقی اور جہالت کے سارے ساز وسامان سے ان کے کارکنان لیس ہیں، جن کے ماںباپ کی جیبوں میں قلم ہوتا تھاآج ان کی اولادوں کے نیفوںمیں پستولیںلگی ہوئی ہیںآج میں اپنے ملک کے نوجوانوں اور اپنی نسل کو دیکھتا ہوں جو ۱۹۸۰؁کی دہائی میں پیدا ہوئی، ان کا لب ولہجہ ، تعلیمی معیار ، بات چیت کا انداز ، پہننے اوڑھنے کا طریقہ، ان کے اپنے مستقبل کے معاملات جب ان سے سنتا ہوںاور ان کی سیاسی پسند اور ناپسند کو دیکھتا ہوں تو افسوس بھی ہوتا ہے اور شرمندگی بھی۔ ایک زمانہ تھا جب اردو بولنے والے کو تمام طبقات عزت کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے، اور اپنے بچوں کو اردو سکھانے اور اپنے گھروں میں اردو میں بات کرناپسند کیا کرتے تھے، لیکن دیکھتے دیکھتے معاشی حالات بہتر بنانے کیلئے تعلیم ، ملازمت اور کاروبار میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے، اس طرح اردو بولنے والوں کی کاروبار پر گرفت مضبوط ہوتی گئی اور زیادہ تر لوگ کاروبار پر اپنی محنت اور لگن سے چھا گئے۔
آج اردو بولنے والا طبقہ کہاں کھڑا ہے؟ ہر اردو بولنے والا اگر اپنی بستی اور محلوں ہی میں دیکھ لے تو اسے جواب مل جائیگا، اور صرف یہی نہیں اردو کے پروفیسر بھی اپنی گفتگومیں انگریزی کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں، ان کے مقالات انگریزی کی شمولیت کے بغیر نامکمل تصور کئے جاتے ہیں، شاید وہ قوم کو بتانا چاہتے ہیں کہ اردو نہیں انگریزی ہماری قومی زبان ہے، اکثر اردو دانوں کے بچے انگلش اسکولوں زیرِ تعلیم ہیں، انہیں اس بات پر فخر ہے کہ ان کے بچوں کو اچھی انگریزی آتی ہے ہم نے آج تک کسی کی زبان سے یہ نہیں سنا کہ ہمارے بچے اردو اچھی بولتے ہیں، جب ان سے سوال کیا جاتا ہے کہ آپ کے بچوں کو بھی اردو زبان وادب سے کوئی دلچسپی ہے تو ان کا جواب نفی میں آتا ہے، زیادہ اصرار کیا جائے تو کہا جاتا ہے کہ ’’اردو ذریعہ روزگارنہیں بن سکتی‘‘اس لئے انگریزی تعلیم دلوائی جارہی ہے۔ اردو زبان کا نفاذ ایک الگ مسئلہ ہے کیونکہ ہمیں افسوس اس بات پر ہے کہ اردو زبان رفتہ رفتہ اپنا تشخص کھورہی ہے۔ انگریزی کی بڑھتی ہوئی عمل داری ہر شعبہ زندگی کو متاثر کررہی ہے، اردو بر محل اور خوبصورت الفاظ کی جگہ انگریزی کے بھونڈے الفاظ کا استعمال کثرت سے بڑھتا جارہا ہے۔ اگر کوئی انگریزی میں گفتگوکررہا ہوتو اس کی زبان پر اردو کا ایک لفظ بھی نہیں آتالیکن ہمارے دانشور اپنی اردو تحریروں اور تقریروں میں انگریزی کا استعمال نہ جانے کیوں ضروری سمجھتے ہیں۔
ایک زمانے میں ریڈیونے اردو زبان کی ترویج وترقی میں نمایاںکردار ادا کیا تھا، زبان کی درستی کیلئے لسانیات سے رجوع کیا جاتا تھالیکن اب صورت حال روز بروز ابتر ہوتی جارہی ہے۔ الیکٹرونک میڈیا اس سلسلے میں جو فراخ دلانہ کردار ادا کررہا ہے اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ آج دیکھیں ! بعض اچھے بھلے اردو الفاظ کی جگہ انگریزی الفاظ نے لے لی ہے مثلاً وقفے کی جگہ ’’بریک‘‘،میزبان کی جگہ’’انکرپرسن‘‘، ناظرین کی جگہ’’ویورز‘‘ ، خوش آمدید کی جگہ’’ویلکم‘‘ ، خلاصے کی جگہ ’’سمری‘‘، مجلس صدارت کی جگہ’’پریسڈیم‘‘، کھیل کی جگہ’’اسپورٹس‘‘، مہمان خصوصی کی جگہ’’چیف گیسٹ ‘‘ ، تازہ ترین کی جگہ’’بریکنگ نیوز‘‘، شخصیت کی جگہ’’پرسنالیٹی‘‘اردو بورڈ کی جگہ ’’اردو ڈکشنری بورڈ‘‘، شب بخیر کی جگہ’’گڈنائٹ‘‘یہ تو وہ الفاظ ہیں جو ہم نے اپنے کانوں سے سنے ہیں اور الفاظ بھی ہونگے لیکن ابھی تک ہم ان سے لاعلم ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہماری زبان اتنی غریب اور بے مایہ ہے کہ دوسری زبان کا سہارا لیا جائے، جبکہ اردو کے علاوہ کوئی دوسری زبان نہیں ہے جس نے جنگ آزادی میں اس قدر نمایاں رول ادا کیا ہو، لیکن افسوس آزادی کے بعد تمام حکومتیں اردو کے تئیں غیر سنجیدہ رہی ہیں ، انہوں نے اردو کو صرف شاعری کی زبان سمجھ لیا ہے ، حالانکہ انسانی ، سماجی اور سائنسی علوم میں ہندوستان میں جو تر قی اردو نے کی ہے وہ کسی اور زبان میں نہیں ملتی ۔ اردو ایک طویل مدت تک ہمارے وطن عزیز میں قانون اور عدالتوں کی زبان رہی ہے ، اگر چہ آزادی کے بعد سے ملک کی اس شیر یں تر ین زبان کو قانون اور عدلیہ سے خارج کر نے کی کوشش برابر کی جا رہی ہے ، اس کے باوجود اردو سے قطعاً نا بلد قانون والے بھی، جن میں وکیل او جج صاحبان ، قانون کے اساتذہ اور طالب علم بھی شامل ہیں ، اردو کے بے شمار قانونی اور عدالتی الفاظ سے بخوبی واقف ہیں اور ان کا بے تکلف استعمال کر تے ہیں ، فرق صرف اتنا ہے کہ وہ ان الفاظ کو پڑھتے اور لکھتے ہندی رسم الخط میں ہیں ۔ ہمارے ملک کا قانونی اور عدالتی سرمایہ آج بھی بڑی حد تک اردو میں ہے اور اردو کے بے شمار قانونی اصطلاحات اب بھی زبان زد عوام و خواص ہیں ۔ عدالت ، وکیل ، منشی، پیش کار ، تحصیل دار ، وصولی ، قانون ، انصاف ، مقدمہ ، گواہ ، بیان ، شہادت ، فریق ، بحث ، جرح ، سزا ، حکم، معافی ، تاریخ ، پیشی ، متوفی ، اولاد ، وراثت ، وصیت اور وارث جیسے نہ جا نے کتنے اردو الفاظ کا استعمال قانون کی دنیا میں آج بھی ہو تا ہے ۔
قارئین محترم !اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو آج جن مصائب اور نا انصافیوں کا شکار ہے ، اس کے لئے حکومتوں کا تعصب ، سیاست دانوں کا عناد اور پالیسی سازوں کی بے حسی بھی شامل ہے ۔ آج ہمیں یہ سوچنا ہے کہ اردو کی حالت آخر اتنی خراب کیوں ہے ؟ آخر اردو کو ختم کر نے کی کوشش کیوں کی گئی ؟ اس کا قصور کیا ہے ؟ ہر شخص کو یہ بات معلوم ہے کہ اردو نے آزادی کے لئے جدوجہد کی ہے ، لیکن آزادی کے بعد سے اب تک صرف اردو زبان و ادب ہی نہیں بلکہ مسلمانوں سے تعلق رکھنے والی جو بھی چیزیں ہیں وہ قابل نفرت ہو گئیں ہیں ۔ مثلا ً قرآن کریم ، حدیث ، آذان ، فتوا اور مولوی سب کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ اس وقت اردو پر جو مشکل آن پڑی ہے اس کے لئے ہر طرح کے ایثار کے لئے ہمیں تیار رہنا ہے ۔ اردو کے فروغ کے لئے صرف حکومت پر تکیہ کر نے کے بجائے اردو والوں کو اپنے طور پر بھی مختلف عملی اقدامات کر نے کی ضرورت ہے ۔ یہ زبان برسوں سے دلوں پر راج کر تی رہی ہے ، اسے مٹانے والے خود مٹ گئے ، یہ زبان زندہ تھی ، زندہ ہے اور زندہ رہے گی ۔ اردو ایک زبان کی حیثیت سے اس وقت تک زندہ رہے گی جب تک اس کا رسم الخط باقی رہے گا ۔ لہذا آج اس بات کی ضرورت ہے کہ ہمارے گھروں میں اردو کے رسالے اور اردو کے اخبارات پڑھے جائیں ، کہیں ایسا نہ ہو کہ آنے والی نسلے اس اردو زبان کو بالکل ہی بھول جائیں ۔
کریگ اسٹریٹ ، کمرہٹی ، کولکاتا ۔۵۸
Mob: 6291697668

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا