آئین کی حفاظت پر منحصر ہے جمہوریت

0
0

 

 

 

ا زقلم: مولانا محمد نعمان رضا علیمی
جمہوری طرز حکومت کو ملک وریاست کے لئے ایک نعمت تصور کیا جاتا ہے اور ہو بھی کیوں نہیں کہ آمریت کے برخلاف اس طرح کی حکمرانی میں تمام تر فیصلے عوامی نمائندگان کے ذریعہ لیے جاتے ہیں۔ جمہوریت کی اہمیت ان لوگوں سے پوچھنی چاہیے جن کے ملک میں جمہوری نظام نہیں ہے وہ چاہتے ہیں کہ جمہوری نظام ان کے یہاں ہو۔ وطن عزیز ہندوستان کے لوگوں کی یہ خوش نصیبی ہے کہ ہمارے لیڈروں نے جد و جہد کے بعد ملی آزادی کی اہمیت کو سمجھا، یہ بات بھی سمجھ گئے کہ آزادی کا مطلب کسی قابض طاقت سے ملک کا آزاد ہو جانا ہی نہیں ہے، بلکہ آزادی کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو دوسروں کی دل آزاری کا خیال کرتے ہوئے اظہار رائے کی آزادی حاصل ہو، مذہبی آزادی حاصل ہو، لباس، زبان، ملبوسات کے انتخاب کی آزادی حاصل ہو اور اس آزادی کی حفاظت کے لیے وہ اپنا لیڈر خود چنیں، اپنی حکومت خود بنائیں۔
دنیا کے بہت سارے ممالک میں، ہمارے ملک کے جمہوری طرز حکومت کو مثال کے طور پر بھی پیش کیا جاتا ہے کہ بھارت ایک ایسا ملک ہے، جہاں مختلف زبان، مذاہب، ذات، رنگ و نسل اور رسم و رواج کے لوگوں کے شیر و شکر ہو کر رہنے کی روایت ہے۔ صدیوں سے یہاں گنگا جمنی تہذیب و تمدن کا رنگ رچا بسا ہے۔ دوستی، محبت، بھائی چارگی، یکجہتی، مساوات، اخوت یہاں کی شناخت ہے۔ جمہوریت کے لغوی معنی لوگوں کی حکمرانی یعنی Rule of People کے ہیں اور آزادی ہند کی حصولیابی کے بعد۲۶ جنوری ۱۹۵۰ء سے بابا صاحب امبیڈکر کے ذریعہ تیار کیے جانے والے آئین کے تحت اس ملک میں جمہوریت اپنی پوری مضبوطی اور استحکام کے ساتھ قائم رہی جن پر ہم بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں۔
جمہوریت کا اصل حسن یہ ہے کہ اس کے زیر سایہ عوام سماجی زندگی کے باب میں نسلی، مذہبی، ثقافتی تہذیبی اور لسانی امتیازات کی لعنت سے پوری طرح پاک ہوں۔ ہر شہری اپنی جان عزت، آبرو، دولت عصمت کو محفوظ سمجھتا ہو۔ اس کے بنیادی حقوق اس کے حق میں مفید ہوں۔ معاشرے میں خیر سگالی، باہمی محبت، آپسی تال میل، یکجہتی اور فرقہ وارانہ اتحاد و اتفاق کا ہر طرف دور دورہ ہو۔ حکومتی استبداد کے خلاف علم حق بلند کرنے والوں کو قید و بند کی صعوبتوں سے دوچار نہ کیا جاتا ہو، انسانی ذرائع کی ترقی اور قابلیت پر زور دیا جاتا ہو، اکثریت اور اقلیت دونوں ایک حلیف کی طرح زندگی گزارتے ہوں ،ساتھ ہی ایک دوسرے کے حریف بن کر بھی مذاہب اور ثقافتوں کا احترام کرتے ہوں۔ حکومت اپنے چند روزہ مفادات کی خاطر متعصبانہ قوانین نافذ کر کے جمہوریت کی عصمت دن دہاڑے تار تار کر کے نئے انقلاب کو جنم دینے کی راہ ہموار نہ کرتی ہو۔
مگر حیف صد حیف! آج مٹھی بھر لوگوں کا ایک گروہ آئین ہند کو بدلنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ وہ آئین کو اپنی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ محسوس کر رہا ہے۔ کھلے عام آئین کا مذاق اڑانے کا معمول بن چکا ہے۔ عدالت اور نظام انصاف کی توہین میں یہ گروہ فخر محسوس کرتا ہے۔ آئین میں دی گئی مساوات، آزادی، اخوت، اظہار رائے، سیکولرزم، سوشلزم جیسی بنیادی ضمانتوں کو ختم کر کے یہ گروہ اپنی مرضی کا ایسا آئین بنانا چاہتا ہے جس میں آزادی، مساوات اور اخوت کی تعبیر اس کی مرضی کے مطابق ہو۔ یہ گروہ ایک ایسے ہندوستان کا خواب دیکھ رہا ہے جس میں اس کی پسند کے لوگ ہی ہندوستانی کہلائے جانے کے حقدار ہوں، شہریوں کی شناخت ہندوستانی کی حیثیت سے نہیں بلکہ مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر ہو۔ اس گروہ کی یہ کوشش ہے کہ سیکولرزم، سماجی انصاف اور سوشلزم ماضی کا حصہ بن جائے۔
یہ گروہ آئین کی اہمیت کو بالکل بھول چکا ہے انہیں نہیں معلوم کہ ہندوستان ۲۰۰ سال سے زائد عرصے تک انگریزوں کی قید میں تھا، اور ہمارے لیڈروں کی جدوجہد اور قربانیوں کے بعد یہ آزاد ہوا تھا۔ یہاں کوئی مستقل آئین نہیں تھا، اور ہندوستانی قوانین برطانویوں کے قائم کردہ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ۱۹۳۵ء کے ترمیم شدہ ورژن پر مبنی تھے۔ تاہم، آزادی ملنے کے دو ہفتوں کے بعد یعنی ۲۹ اگست ۱۹۴۷ء کو ڈاکٹر بھیم راو امبیڈکر کی صدارت میں ہندوستانی آئین کا مسودہ تیار کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔ کافی محنت اور سوچ بچار کے بعد آئین کا مسودہ تیار کیا گیا۔
آئین کا پہلا مسودہ۴نومبر ۱۹۴۷ء کو ہندوستانی دستور ساز اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا۔ ۲ سال ۱۱ مہینے ۱۸ دنوں کے اس عرصے میں اس اسمبلی نے ۱۶۶ مرتبہ اجلاس کیا ۔ اسمبلی کے ۳۰۸ ممبران نے کئی اجلاس میں عوام کو بھی شامل کیا ، اور مسودے میں کئی مرتبہ ترامیم بھی کی گئی تھیں۔ بالآخر۲۴ جنوری ۱۹۵۰ء کو اسمبلی کے ممبران نے دستور کی دو تحریری کاپیوں پر دستخط کیے، جن میں سے ایک انگریزی میں اور دوسرا ہندی میں تھا۔ اور پھر دو دن بعدآئین کو نافذ کرکے دنیا کی عظیم جمہوریت کی تاریخ رقم کی گئی۔
جس طرح آزادی بڑی نعمت ہے، اسی طرح جمہوریت اور آئین کی حکومت بھی بڑی نعمت ہے۔ بھارت کا آئین اس ملک کا دستور اعلیٰ ہے، اس قانونی دستاویز میں جمہوریت کے بنیادی، سیاسی نکات اور حکومتی اداروں کا ڈھانچہ طریقہ کار اختیار اور ذمہ داریوں نیز بھارتی شہریوں کے بنیادی حقوق، رہنما اصول اور ان کی ذمہ داریوں کو بیان کیا گیا ہے یہ آئین دنیا کا سب سے ضخیم آئین ہے۔ آئین ہند کے مطابق بھارت میں آئین کو پارلیمان پر فوقیت حاصل ہے، کیونکہ یہ مجلس آئین ساز نے بنایا ہے۔ بھارت کے آئین کی تمہید کے مطابق بھارت کے عوام نے اسے وضع کیا ہے، پارلیمان اس کو معطل نہیں کر سکتی ہے بھارت کے آئین کے تین بڑے حصے ہیں، حصہ اول میں یونین اور اس کے علاقے اور ریاستیں اور ان کے حقوق کے بارے میں تبصرے کیے گئے ہیں۔ دوسرے حصہ میں شہریت کو موضوع بنایا گیا ہے کہ کسے ہندوستانی شہری کہلانے کا حق حاصل ہے اور کسے نہیں ہے۔ تیسرا حصہ ہندوستانی آئین کے فراہم کردہ بنیادی حقوق کی تفصیل کی ساتھ وضاحت کرتا ہے۔ ملک میں بسنے والے تمام شہری باعتبار انسان یکساں حقوق کے مالک ہیں۔ ملک کے آئین کے اعتبار سے ان کے درمیان کسی قسم کی اونچ نیچ، اعلیٰ اور ادنی کی کوئی تفریق نہیں، حقوق و اختیار میں کسی کو کسی پر فوقیت نہیں ہوگی مملکت محض مذہب، نسل، ذات، جنس، مقام پیدائش یا ان میں سے کسی کی بنا پر کسی شہری کے خلاف امتیاز نہیں برتے گی۔
کیا ہی بہتر ہوتا کہ جو محنت ہمارے آباء و اجداد نے اس ملک کے آئین کو بنانے میں کی، ہم ان کا حق ادا کر دیتے۔ سوال صرف موجودہ حکومت پر نہیں، بلکہ شہریوں پر بھی اٹھتا ہے کہ ہم نے اپنے ملک کے تئیں کیا کردار نبھایا ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ (لوگ اپنے بادشاہوں کے مذہب پر ہوتے ہیں۔) یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ اصل ذمہ دار حکومت ہی ہے، لیکن سوچیے! ہماری حکومت ہم ہی لوگوں میں سے ہے، یہ کوئی خارجی لوگ نہیں ہیں۔ اگر ہم اپنا رویہ تبدیل کریں اور ملک کے لیے فکرمند ہو جائیں تو یقیناً حکومت کی طرف سے بھی مثبت پہلو سامنے آئیں گے۔

وطن کی خاک ذرا ایڑیاں رگڑنے دے
مجھے یقین ہے پانی یہیں سے نکلے گا

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا