محمد اعظم شاہد
مرکز میں مودی کی حکومت اور یوپی میں یوگی کی حکومت سے پہلے بھی ملک میں مسلمانوں کے ساتھ عمداً بھید بھاؤ کیا جاتا رہا ہے۔ الگ الگ طور پر تنازعات کو گرمایا جاتا رہا ہے۔ اور ہر تنازع کی آڑ میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ مقصد تو یہی تھا کہ مسلمانوں کو کسی نہ کسی طرح ستایا جائے۔ انہیں حاشیہ پر رکھاجائے۔ عام دھارے میں مسلمانوں کی شمولیت Inclusivityپر روک لگائی جائے۔ نئے نئے نام نہاد قوانین کی آڑ میں مسلمانوں کو ہراساں کیا جائے۔ روز مرہ کے معاملات میں نئی نئی رکاوٹیں ان (مسلمانوں) کے لیے تیارکی جائیں۔ عام طور پر ملک کے مسلمان سرکاری اورغیر سرکاری ملازمتوں میں ان کی شمولیت خاطر خواہ کبھی بھی نہیں رہی ہے۔ چھوٹے چھوٹے کاروبار میں لگے عام مسلمان اپنی گزر بسرکے لیے کئی مشکلات کا سامنا کرتے آئے ہیں۔ دھرم کے ’’شدھّی کرن‘‘ کے نام پر مسلمانوں کے تجارتی بائیکاٹ کی بھی ہندو شدت پسندوں نے کئی بار کوششیں کی ہیں۔ کئی مذہبی تقریبات کے دوران لگنے والے میلوں میں مسلمان کئی برسوں سے اپنی دکانیں لگاتے آرہے ہیں۔ مندروں کے آس پاس تجارت کرنے والے مسلمانوں کی دوکانوں سے عقیدت مند ہندوؤں نے کبھی بھی اپنی ضرورت کی اشیا ان (مسلمانوں) سے خریدنے نہ کوئی شکایت کیا کرتے اورنہ ہی کوئی اختلاف ہوا کرتاتھا، آپسی میل ملاپ اور بھائی چارے کا ماحول رہا کرتا تھا۔ مگر ’ہندوتوا‘ کے نظریہ نے پچھلے دس برسوں میں شدت اختیارکرلی ہے۔ دھرم کے نام پر شرمچانے والے ٹھیکیداروں نے ان کو ملی کھلی چھوٹ کا بے جا استعمال کرنے لگے۔ نفرت کا پرچار کرنے والوں کو انتظامیہ اور حکومتوں کی سرپرستی حاصل ہونے لگی۔ نتیجہ میں مسلمانوں کی
تجارت نشانہ بنتی رہی۔ ان حالات میں مقامی پولیس بھی تماشائی بنی رہی۔
مذہبی بھید بھاؤ ملک کے آئین کے رہنما اصولوں کے خلاف ہے۔ مذہب کے نام پر بھید بھاؤ کرنا مجرمانہ عمل مانا گیا ہے۔ باوجود ان آئینی مراعات کے بالخصوص مساوات Equality کو عملاً فراموش کیا جانے لگا ہے۔ پچھلے ہفتے ایسا ہی ایک معاملہ اُترپردیش میں پیش آیا۔ یوگی حکومت نے کانوڑیا یاترا کے دوسو چالیس کلو میٹر راستے (روٹ) سے لگی ہوئی اپنی حدود میں یہ فرمان جاری کردیا کہ راستے میں پڑنے والی تمام دوکانوں، ہوٹلوں اور سڑک کنارے تجارت کرنے والے ٹھیلے والوں سبھی کو نیم پلیٹ (نام کی تختی) پر مالک اور نوکر کے نام مذہب اور ذات کی تفصیلات نمایاں طورپر لکھ کر ظاہر کرنا لازمی ہے، تاکہ یاتریوں کو معلوم ہو کہ وہ کونسے ہوٹل، دھابہ یا ٹھیلے سے کھانے کی چیزیں خرید رہے ہیں۔ یوپی کے مظفر نگر کی پولیس نے سرکاری احکامات کا حوالہ دے کر احکامات جاری کیے ہیں کہ ساون (برسات) کے مہینے میں کانوڑیئے گنگا کا پانی لانے یاترا کے دوران کچھ اقسام کے کھانوں سے دور رہنا چاہتے ہیں۔ ان میں سے کئی لوگ پیاز اور لہسن سے پرہیز کرتے ہیں۔ اس لیے دوکان یا ہوٹل یا ٹھیلے کے مالک اور ملازمین کے نام، مذہب اور ذات کے نام کی تختی میں اعلان کریں۔ یعنی ان احکامات کے ذریعہ صاف طور پر چھوت چھات، ذات پات، مذہبی تفرقے کو ہوا دی جانے لگی۔ اُترپردیش حکومت کے بعد اُتراکھنڈ ریاست میں بھی پولیس کو اسی طرح کے احکامات جاری کیے گئے۔ ان ریاستوں کے بعد مدھیہ پردیش اور راجستھان میں بھی یہی تنازعہ سراٹھاتارہا۔ ان احکامات کی روشنی میں صاف واضح ہے کہ مسلمان تاجر نشانہ پر ہیں۔ یعنی مسلمانوں کا اقتصادی بائیکاٹ کیا جارہا ہے۔ انہیں پریشان کرکے ان کی تجارت کو نقصان پہنچانے کی سوچی سمجھی سازش ہے۔ یہ ملک کے شہری کی انفرادی آزادی کی خلاف ورزی ہے ۔آئین کے مراعات کو فراموش کرنا ہے۔ مذہبی بھید بھاؤ کو بڑھاوا دے کر آپسی نفرت کو عام کرنا ملک اور آئین کے اصولوں اور کردار کے خلاف کھلے عام کھلواڑ ہے۔ پہلے قانون کو اپنے ہاتھوں میں لے کر دھرم کے ٹھیکیدار غنڈہ گردی میں ملوث رہتے تھے۔ اب جہاں تجارت کا اجازت نامہ مقامی بلدیہ (میونسپالٹی؍ کارپوریشن) کی طرف سے جاری ہوا کرتا ہے ان معاملات کو پولیس کے حوالے کرنا ہی رائج قانون کی خلاف ورزی ہے۔
اس ضمن میں ایسے بھید بھاؤبڑھانے والے احکامات اور پولیس کی اجارہ داری کے خلاف پارلیمان کے جاری سیشن میں اپوزیشن نے کھل کرمذمت کرتے ہوئے ان احکامات کو واپس لینے حکومت کی توجہ دلائی۔ اس دوران سپریم کورٹ میں اس ضمن میں عوامی حقوق کے تحفظ کے لیے قائم غیر سرکاری ادارے نے ایک مفاد عامہ عرضی داخل کی۔ عرضی پر سماعت کرتے ہوئے ایک خصوصی بینچ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے اُترپردیش ، اُتراکھنڈ اور دیگر ریاستوں کو جہاں سے کانوڑیا یاترا گذرے گی پھٹکار لگاتے ہوئے کہاکہ فروخت ہونے والی اشیاء کی تفصیلات یعنیMenu معلوم کروایا جائے اور کسی بھی طرح ہوٹل یا دھابہ یا کسی دکان یا ٹھیلہ کے مالک اور ملازمین کا نام کسی بھی حالت میں ظاہر نہ کیا جائے۔ کانگریس، سماج وادی پارٹی اور ترنمول کانگریس کے کئی اراکین پارلیمان میں اور باہر بھی ان احکامات کی مذمت کرتے ہوئے بیانات بھی دیئے ہیں۔ ترنمول کانگریس کی رکن پارلیمان مہوا موئترہ نے ان احکامات کو آئین مخالف اور مضحکہ خیز بتاتے ہوئے کہا ہے کہ اگر مقدس یاترا کے دوران کوئی یاتری بیمار ہوجائے تو علاج کرنے والے ڈاکٹر سے اس کے مذہب کے بارے میں کیا کوئی پوچھ تاچھ کرے گا؟ یہ فضول اور نفرت پھیلانے والے احکامات ہیں۔
بہرحال اس کانوڑیاترا کے دوران دکانداروں کے معاملے میں تنازعہ اور احکامات کا نشانہ مسلمان تاجر رہے ہیں۔ کئی ہوٹلوں، دھابوں اور دوکانوں میں کام کررہے مسلمان ملازمین کو مالکان نے برطرف کردیاتھا۔ اس لیے کہ وہ کسی بھی طرح کی سرکاری مصیبت کا سامنا کرنا نہیں چاہتے تھے۔ سپریم کورٹ کے بروقت فیصلے سے آئین شکن ریاستی حکومت کے احکامات پر پابندی لگی ہے۔ اپنے ہی ملک میں اپنوں کے ہاتھوں اس طرح کا استحصال اور متعصبانہ رویہ افسوسنا ک بھی اور باعث تشویش بھی ہے۔ ملک کو آگے لے جانے کی باتیں محض باتیں ہی رہ جائیں گی۔ اگر ایسا ہوتا رہا تو آزاد ملک میں اجارہ داری نئے رنگ سے سراُٹھاتی ہی رہے گی۔
[email protected] cell: 9986831777