عالمہ حمیرا حسین مومناتی
شوال المکرم کا مہینہ اپنی برکت و فضیلت کے ساتھ ہمارے اوپر سایہ فگن ہے۔ ماہ شوال بڑی فضیلتوں والا مہینہ ہے۔ جس کی پہلی رات لیلۃ الجائزہ ہے اور پہلا دن عید الفطر کا ہے۔اس کے علاوہ یہ ماہ اشہر حج یعنی حج کے تین مہینوں میں سب سے پہلا مہینہ ہے۔ اسی لئے شوال المکرم سے ہی حج کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں اور بہت سے لوگ ماہ شوال میں حج کیلئے رخت سفر باندھتے ہیں۔
اس ماہ کا ایک اہم ترین کام اور عظیم الشان عمل اس کے چھ روزے ہیں جس کی احادیث مبارکہ میں بڑی ترغیب اور فضائل بیان کئے گئے ہیں.
*شوال المکرم کے چھ روزوں کے فضائل :*
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے رمضان کے (پورے)روزے رکھے اس کے بعد شوال کے چھ (نفلی) روزے رکھے تو یہ پورے زمانے کے روزے رکھنے کے برابر ہے”۔ عن ثوبان أن رسول اللهﷺ قال1715 آنحضرتؐ کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ : ’’جس نے رمضان کے روزے رکھے اور (اس کے بعد) شوال کے چھ روزے رکھے تو (گویا) اُس نے پورے سال کے روزے رکھے۔
”اللہ تعالیٰ ایک نیکی کا ثواب دس گنا دیتا ہے،پس ایک مہینہ روزہ رکھنا دس مہینے کے برابر ہوا، اور عید کے بعد چھ دن کے روزے سال کو پورا کردیتے ہیں”۔ مسلمانوں کو انکے ہر نیک عمل پر اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے کم از کم دس گنا اجر عطا فرماتا ہے جیساکہ قرآن کریم میں ذکر ہے ": 160) ’’جو شخص نیک کام کرے گا اسکو اسکے دس گنا ملیں گے اور جو شخص برا کام کرے گا اسکو اسکے برابر ہی سزاملے گی اور ان لوگوں پر ظلم نہ ہوگا‘‘۔
اسی قاعدے کے مطابق رمضان المبارک کے ایک ماہ کے روزے دس مہینوں کے برابر ہیں اور اسکے بعد شوال کے چھ روزے بھی رکھ لئے جائیں تو یہ دو مہینوں کے برابر ہو گئے ، یوں گویا رمضان کے بعد شوال کے چھ روزے رکھ لینے والا پورے سال روزہ رکھنے کے اجر کا مستحق ٹھہرا ، دوسرے لفظوں میں اس نے پورے سال کے روزے رکھے اور جس شخص کا یہ مستقل معمول رہا تو وہ ایسا ہے جیسے اس نے پوری زندگی فرض روزے کے ساتھ گزاری ، اس اعتبار سے یہ چھ روزے بڑی اہمیت کے حامل ہیں گرچہ ان کی حیثیت نفلی روزوں ہی کی ہے ۔
*ماہ شوال کے چھ روزے کے فوائد:*
*( 1 )* *فرض روزوں کی کوتاہیوں کی تلافی* حضرات محدثین نے لکھا ہے کہ رمضان المبارک کے فرض روزے کے ساتھ شوال المکرم کے ان چھ نفلی روزوں کو وہی نسبت اور مقام حاصل ہے جو فرض نمازوں کے ساتھ سنت و نفل نماز کو حاصل ہے ، چنانچہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ روزقیامت فرائض میں پیدا شدہ نقص و کمی نوافل سے پورا کیا جائے گا ، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : روز قیامت بندے کے اعمال میں سب سے پہلے نماز کا حساب ہوگا ، ہمارا رب عزوجل اپنے فرشتوں سے فرمائےگا حالانکہ وہ زيادہ علم رکھنے والا ہے میرے بندے کی نمازوں کو دیکھو کہ اس نے پوری کی ہیں کہ اس میں کوئی نقص ہے ، اگر وہ مکمل ہوں گي تو مکمل لکھی جائے گي ، اوراگر اس میں کچھ کمی ہوئي تواللہ تعالی فرمائے گا دیکھوں میرے بندے کے نامہ اعمال میں نوافل بھی ہیں اگر اس کے پاس نوافل بھی ہونگے تو اللہ تعالی فرمائے گا میرے بندے کے فرائض کی کمی اس کے نوافل سے پورے کرو ، پھر باقی اعمال بھی اسی طرح لیے جائيں گے ( سنن ابوداود, حدیث نمبر: 733 ) اور اس لحاظ سے دیکھئے تو اکثر لوگوں کے فرض روزوں میں کچھ نا کچھ خلل یا کمی واقع ہوہی جاتی ہے۔
لہٰذا جو لوگ صرف رمضان کے روزے رکھ کر اس کے پورے فوائد و برکات حاصل نہیں کرپاتے ان کو وہ فوائد شوال کے چھ روزے رکھ کر حاصل ہوجاتے ہیں۔
*2۔* رمضان کے بعد شوال کےروزے رکھنا ،اس بات کی دلیل اور علامت ہےکہ رمضان کے فرض روزے قبول کرلیے گئے۔ احادیث مبارکہ سے یہ بات ثابت ہے کہ اللہ تعالی جب کسی بندے کے نیک عمل کو قبول فرماتے ہیں ،تو اس کو مزید نیک عمل کی توفیق عطا فرماتے ہیں ۔ اس لیے بعض علمائے کرام فرماتے ہیں کہ ایک نیکی کے بعد دوسری نیکی کرنا ،پہلی نیکی کے قبولیت کی علامت ہے۔ بالکل اسی طرح ایک نیکی کے بعد برائی کا ارتکاب کرنا علامت ہے کہ سابقہ نیکی شرفِ قبولیابی سے محروم رہی ہے.
*3.* رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا من صام رمضان إيمانا واحتسابا، غفر ل ما تقدم من ذنب” (صحيح البخاري , حدیث نمبر :1901) جس نے رمضان کے روزے ایمان کے ساتھ اور خالص ثواب کی نیت سے رکھے اس کے سابقہ تمام گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔ لیکن خود رمضان المبارک میں سرزد ہوئی کوتاہیوں اور لغزشوں کی مغفرت کا ایک کارگر وسیلہ اور مؤثر ترین نسخہ شوال کے روزے تجویز کئے گئے ہیں۔
*4* رمضان کے روزہ داروں کے اجر کو عید الفطر کے دن تقسیم کیا جاتا ہے کہ اس دن کو انعام کا دن (یوم الجوائز)بھی کہا گیاہے۔ اب عید الفطر کے بعد پھر روزہ رکھنا اس نعمت واجر پر شکرگزاری کی دلیل ہے۔ واضح رہے کہ گناہوں کی مغفرت وسِتر سے بڑھ کرانسان کے لیے کوئی نعمت نہیں ہوسکتی۔ اللہ کے رسولﷺ کا اسوہ یہ تھا کہ آپ عبادات وقیام لیل کا اس درجہ اہتمام فرماتے کہ پائے مبارک ورم آلود ہوجاتے۔ آپﷺ سے کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے و پچھلے تمام گناہ معاف فرما دیے ہیں(پھر ایسا کیوں)؟آپ ﷺنے یہ سن کر فرمایا: کیا میں ایک شکر گزار بندہ نہ بنوں؟‘‘(صحیح بخاریؒ: 4836۔صحیح مسلمؒ:2819 )
*5* اللہ رب العزت نے اپنے بندوں کو صومِ رمضان کی ادائیگی کی نعمت اور توفیق پالینے پر ذکرِ الٰہی وتکبیر وتسبیح وغیرہ کے ذریعہ اپنی شکرگزاری کے اظہار کا خود حکم دیا ہے
لہٰذا رمضان کی توفیق پالینے، اس پر تائید واعانتِ ربانی سے مستفیض ہونے اور گناہوں کی مغفرت پر شکر گزاری میں یہ بھی شامل ہے کہ اسکے بعد ازخود چند روزے رکھے جائیں۔ حضرت وہیب بن الوردؒ سے اگر کسی نیکی پر مرتب ہونے والے ثواب کے بارے میں پوچھا جاتا تھا تو فرماتے: نیک عمل کے اجر وثواب کے بارے میں مت پوچھو، بلکہ یہ جاننے کی کوشش کرو کہ اس عمل کی ادائیگی پر شکریہ کیسے ادا کیا جائے کہ رحمن ورحیم رب نے تمہیں اسکی توفیق عطا فرمائی۔
*6۔* اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ُ (الحجر: 99 ) اور مرتے دم تک اپنے رب کی عبادت کرتے رہو شوال کے روزے رکھ کر گویا انسان شیطان کو مایوس کردیتا ہے کہ، وہ رمضان کے بعد انسان کو اللہ کی عبادت سے غافل کردے گا. بلکہ شوال میں بھی اللہ کی عبادت میں مصروف ومشغول ہو کر انسان یہ پیغام دیتا ہے، کہ وہ کسی خاص دن یا مہینے نہیں، بلکہ ہر وقت اللہ کی عبادت میں مصروف رہنا چاہتا ہے۔ ( لطائف المعارف لابن رجب: 220-224)۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس ماہ کے روزے رکھنے کی توفیق عطا فرمائے، اور تا دم حیات اپنا وفادار اور اطاعت شعار بنائے رکھے ۔ آمین