ڈاکٹر جی۔ایم ۔پٹیل پونہ رابطہ : 9822031031
خدیجہ مستور ترقی پسند اور آزاد خیال خاتون ناول نگار ہیں۔ آپ نے اپنی تخلیقی ذہانت اور فنکا رانہ مہارت سے ناول نگاری کے فنی معیارکو بلند کیا اور اسکی گہرائی کو بڑھا یا۔ آپ فکری شعور کا ایک مجموعی شاہکا ر ہیں۔ ایک خاص معاشرتی اصلاح ،عوامی زندگی کے مسا ئل کا حل تلاش کرنا یہی ایک مقصدرہا ۔ خدیجہ مستور اپنی تمام تر خوبیوں ،بڑی مہارت اور بیحد خوبصورتی سے زندگی کی پیچدگیوں کو زمانے کے روبرو لے آتی ہیں اورعام واقعیات سے غیر معمولی واقعیات تک پہنچنے میں آپ کو سبقت حاصل ہے ۔آپ کسی ادبی تحریک سے وابستہ نہیں تھے ۔ آپ نے اپنی ناول ،افسانوں میں تحریر کردہ تمام کردار کی اپنی اپنی فکری پیچدگیوں اور نفسیاتی تناؤ کی بہترین عکاسی کی ہے ۔ ان کے مجروح زخموں اور ذہن میں ابلتے فکری تصورات کو بڑی بے تکلفی اور روز مرہ کی سلیس عام زبان میں اس موثر انداز میں پیش تحریر کرتی ہیں کہ قارئین بعد مطالعہ اش اش کر تے ہیں اور ان کے ذہنوں پر تحریر کردہ حادثات و واقعیات ،المیہ کی ضرب کاری اسقدر محیط ہوجاتی ہے کہ وہ سوچ و فکر، غم، غصہ و صدمہ کا مجسمہ بن جاتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں کہ تمام واقعیات ان کے اپنے ہیں۔ اس طرح آپ نفسیاتی جبر کی گہری مبصر تھیں۔ خدیجہ مستو ر کا تحریری انداز بالکل منفرد اور عصمت چغتائی یا واجدہ تبسم کے برعکس تھا ۔ آپ نے اپنی تحریروں کا اخلاقی معیار کافی بلند رکھا اور ہے تحریروں پر کوئی داغ لگنے نہیں دیا۔یہ اردو ادب کے لئے پارسا ،انوکھا اچھوتا، بے مثال تحفہ ہے۔
خدیجہ مستور ۱۱ دسمبر ۱۸۲۷ میں ضلع بریلی میں ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ ذی شعور و باوقار خاندان میں آنکھیں کھولیں۔والد محترم ڈاکٹر سیّد طہور احمد خان جو برطانوی فوج کے میڈیکل افسر تھے۔ سرکاری ملازم ہونے کی باعث وقتاََ فوقتاََ ان کا تبادلہ لازمی تھا جو خدیجہ کی تعلیم پر اثر انداز رہا۔ لیکن آپ کی والدہ محترمہ ایک روشن خیال خاتون اور کامیاب مصنفہ تھیں اور اردو ادب کی خدمات میں مصروف رہتیں۔ والدہ محترمہ کے مضامین اس دور کے کئی جریدوں میں شائع ہوتے تھے۔ خدیجہ مستور کی بہن ہاجرہ مسرور خصوصی طور سے اطفال رسالوں میں لکھنے کا آغاز کیا اور بعد میں ان کی کہانیاں اور افسانے ’’ ساقی‘‘۔’’ ادبی دنیا ‘‘ اور ’’ عام گیر ‘‘ ان معروف رسالوں میں شائع ہوتے رہے۔ اس طرح ہاجرہ مسرور کو اردو دنیا میں اپنی ادبی شناخت حاصل تھی ۔
خدیجہ مستوور ایک بااخلاق، اعلیٰ کردار ، اور نہایت ہی ادب نواز خاندان سے نوازی گئیں تھیں یہی وجہ تھی آپ کے تخیل کی اڑان،فکر ی بلندی اخلاقی و معیاری تھی۔ ۱۹۴۴ میں ہاجرہ مسرور اور خدیجہ مستور ان دونوں کے افسانے ’’ ساقی ‘‘ اس رسالہ میں شائع ہوتے رہے ۔ کم عمری ہی میں آپ کو والد محترم سید طہور خان اللہ کو پیارے ہوئے ، بعد ازاںمعاشی تنگی حالات سے بیحد پریشان رہیں۔بمبئی میںآپ کی خستہ حا لی بے قابو ہوگئی تو ا ن بے بس اور مجبور حالات میں آپکا خاندان بمبئی سے پاکستان ہجرت کر گیا ۔’ احمد ندیم قاسمی ‘نے اس خاندان کی بے انتہا مدد کی۔۱۹۵۰ میں صحافی’ ’ظہیر بابر اعوان‘ ‘ احمد ندیم قاسمی کے بھتیجے سے شادی ہوئی اور خدیجہ مستور نے اپنے خاوند ظہیر کے ساتھ ایک کامیاب ازدواجی زندگی گزاریں۔
بیسویں صدی میں مذہبی روایات اور مذہبی تقاضوں،’مرد اساس معاشرے ‘کے ظلم و ستم ،پدرانہ نظام نے خواتین کو چار دیواری میں سخت پابند کر رکھا تھا۔ پھر ان خواتین کا شعری،نثری ادب کا تصّور بھی گناہ تھا۔لیکن محمدی بیگم ‘ صغرا ہمایوں ‘ سجاد حیدر‘ ان خواتین نے معاشرے کا بڑی ہمت و جرأت سے مقابلہ کیااور آخرکار ۳۵ ۱۹ میں اپنی تحریر وں سے خواتین میں ذہنی بیداری اور سماجی زند گی میں ایک ترقی یافتہ آزاد پسندکردار اختیار کرنے کی ترغیب دی۔ ان آزاد و روشن خیال خاتون مصنفین نے ان سخت ترین روایات میں بھی اپنی انقلابی آزاد سوچ کو ارددو ادب میں ایک اعلیٰ مقام عطا کیا۔ افسانہ نویسی ، ناول نگاری ،ڈرامہ نگاری اور شاعری میں اردو ادب کی خدمات کا شاہکار ثابت ہوئیں اور اپنی فتح کا ادباََ جشن منایا ۔ عصمت چغتائی ‘ رضیہ سجاد حیدر ‘ قرۃالعین حیدر‘ خدیجہ مستو ر ‘ بانو قدسیہ ‘ الطاف فاطمہ‘ ساجدہ زیدی ‘ جمیلہ ہاشمی ‘ صالحہ عابد حسین ‘ جیلانی بانو ‘ آمینہ ابوالحسن ‘ جیسی متعدد ناول نگار ہیں جو آج بھی اردو ادب کی افق پر درخشاں ہیں۔ صنف نازک ،حسا س خواتین کرب ناک ازیتوں کے باوجود مردوں کی مناسبت مقبولیت کی بلندیوں کو چھولیااور قارئین کے دل و دماغ پر نہ صرف اپنی فتح کا سکہ ثبت کیا بلکہ اپنی سوچ و فکر اور اپنی عمدہ تحریروں سے ان کے ذہنوں پر قابض رہیں۔
۱۹۴۷ کے تقسیم ہند کے انتہائی انتشار و مظالم ، ناانصافیوں،سختیوں کی ذہنی ضرب کاری سے خدیجہ بے حد بے چین و مضطرب رہیں اور اس المیہ ، اپنے مجروح جذبات کی عکاسی کو گہری سوچ ،فکر سے تصانیف کے اوراق پر رقم کردیا ۔اُردو ادب میں خد یجہ مستور کے پانچ افسانو ی مجموعے شائع ہوئے ’’۱۹۴۴ میں کھیل‘‘ ۔ ’’۱۹۴۶ میں بوچھار ‘‘ ۔ ’’۱۹۵۱ چند روز‘‘ ۔’’۱۹۶۲ تھکے ہارے‘‘ ۔’’۱۹۸۱ میں ٹھنڈا میٹھا پانی‘‘ ۔
ُاُردو ادب میں مشہور زمانہ ناول ’’ آنگن‘‘ ایک بہترین ناول میں شمار ہے ۔’’ڈیزی راکو یل ‘ برطانیہ میں مقیم ایک معروف مصور اور ہندی و اردو ادب کی اعزاز یافتہ مترجم ہیں ،انہوں نے ’آنگن‘ اس ناول کا انگریزی میں ترجمہ کیا ۔آنگن‘ اس ناول پر پاکستان نے ایک ٹی وی سیریل بھی جاری کی۔ ’’ پنگوئین ‘‘نے اس ناول کو ایک کو کلاسکی ناول کا درجہ دیا ۔ ۱۹۶۲ میں اس ناول کیلئے آپ کو پُر وقار ’’ آدم جی ‘‘ ADAMG‘‘ اعزاز سے نواز ہ گیا۔ ’اسلوب احمد انصاری ‘ نے آنگن کو اردو کی بہترین نا ول میں شمار کیا۔ شمس الرحمٰن فاروقی کا شکوہ رہا کہ اس ناول پر اب تک جتنی توجہ دینی چاہئے اتنی توجہ نہیں دی گئی جس کی وہ مستحق ہے۔
تقسیم ہند کے موضوع پر ’آنگن‘ یہ انتہائی متوازن ناول اپنی مثا ل آپ ہے۔ مہاجرین کے حالات زار ،منفی اور مثبت اندازِ بیاں بے شک دلوں کو چھو لیتا ہے ۔کافی مبصرین نے آنگن کو اپنی تنقیدوں سے اپنے خیالات کو واضح کی ہے۔ غزالہ فاطمہ کا اپنا ایک الگ انداز ہے۔ ’آنگن‘ یہ ناول ایک علامتی انداز میں عہد کا مکمل اثر رکھتی ہے ۔ آنگن ‘‘ کا بنیادی موضوع’ ہندوستانی معاشرے کی گھریلو زندگی پر سیاسی اثرات‘ ہے۔ مصنفہ نے متوسط طبقے کی عکاسی کی ہے جو ملکی سیاست کی پُر پیچ گتھیوں کو سلجھاتے ہوئے تباہی کے دہانے آن کھڑا ہوا ہے۔ملکی سیاست گھریلو زندگی کو مضیر بناتی ہے اور گھر کے خاندان کے افراد مختلف نظریات و روایت کے پا بند ہو جاتے ہیں۔ ناول کے اہم ترین خاتون کردار’’ تاجی‘‘ کو بہترین انداز میں تراشا گیا ہے۔ تاجی‘ کی والدہ کی ایک خام خیالی تھی یا ناسمجھی یا اسکی معصوم سمجھ تھی کہ ا گر وہ آزاد ملک پاکستان میں بس جائے گی تو کافی محفوظ ہاتھوں میں رہے گی اور ایک شریف مسلم سے بیاہ کے بعد ایک خوشحال ازدواجی زندگی بسر کرلے گی۔ لیکن ‘کاظم ‘ ایک افسر ہوتے ہوئے بھی تاجی کے ساتھ وہی سلوک کرتا ہے جوہندوستان میں کوئی غیر نسلی تعصب کی وجہ سے ہوتا ہے۔آپ کی ایک اور ناول ’’ زمین‘‘ ، ’’آنگن ‘‘ کی توسیع ہے۔اس ناول میں شعور ، اقدار کی شکست اور معاشرتی کی تبدیلیوں کی داستان کو تاریخ کے حوالے سے تحریر کیا گیاہے۔ جس میں انسانی زندگی کے مسائل کاسب سے بڑا مسئلہ نظریاتی شکست کا ہے۔ جس کے تمام کردار ایک ہی گھر میں متضاد ،طبقاتی رویوں میں جکڑے
ہو ئے ہیں۔ناو ل میں خدیجہ نے ساجدہ کی زبانی اپنے احساسات اور جذبات کو بیان کئے ہیں،جس میں آپ کا اشتراکی اندازِ فکر واضح صور ت میں دکھائی پڑتی ہے۔ ’زمین ‘ میں اخلاقی قدروں کا المیہ بہترین انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ناول آنگن اور اور زمین کا موضوع’ فساد ‘ہے اور ان کے کردار متوسط طبقے کے سے تعلق رکھتے ہیں ۔لیکن انکی ذہنی سطح ، ذہنی کیفیت ، انکے خیالات اور انکا رویہ ایک دوسرے سے کافی مختلف ہے۔آنگن کی ’عالیہ ‘ اگرچہ ’زمین‘ کی ساجدہ جیسی حساس ہے لیکن دونوں کا رویہ ایک دوسرے سے مختلف ہے۔عالیہ میں خود اعتمادی کی کمی لیکن پست ہمت ، فساد کے خوف سے بہت کچھ کہنا چاہتے ہوئے بھی بے بس او ر لاچار ہے۔کسی خاص شخص کی محبت سے زیادہ اس کے ذہن میں وہم اور بد گمانیاں زیادہ ہیں۔اسے جمیل ،کیمپ ڈاکٹر اور صفدر میں مثالی خوبیوں کو نظر انداز کر تنہا رہنا پسند کرتی ہے ۔ اس کے مقابلے ساجدہ عالیہ نڈر ،پر اعتماد اور ایک پختہ خیال لڑکی ہے جسے ہجرت کے بعد اپنے مالک کے ہاں پناہ لینی پڑتی ہے ۔جہاں وہ اپنی حیثیت کھو بیٹھتی ہے اور سوچتی ہے کہ یہ اس کے مقدر میں نہیں ہے۔
خدیجہ مستور نے اپنی ساری زندگی اردو ادب کی خدمات میں گزاریں اور ۲۶ جولائی ۱۹۸۲ میں دل کا دورہ پڑنے سے رحلت کر گئیں اور آپ کے جسد خاکی کو لاہور میں سپرد خاک کیا گیا۔
۲۰۰۵ میں کراچی آرٹس کونسل میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ جس میں بطور مہمان خصوصی آپ کی بہن ہاجرہ مستور تھیں اور اس تقریب کی صدارت معروف عالم’ سحر انصاری‘ نے قبول کی تھی ۔اپنے صدارتی خطبہ میں عالم سحر انصاری نے کہا کہ’’ دونوں بہنوں نے بطور مصنف اپنے اپنے انفرادی انداز میں اور معاشرے کی روایات کو قائم رکھتی ہوئیںاپنی تحریروں میں جان ڈال دی ہے اور مقولیت کے آسماں کو چھ لیا ہے اور خصوصی طور سے صدر انصاری نے ’’خدیجہ مستور ‘ اپنے ماحول ، معاشرے کے حالات اور معاملات کا جائزہ اپنی تصانیف اور افسانوں کی نظر کیا۔
٭٭٭٭